پیر ‘ 15 ربیع الاول 1445ھ ‘ 2 اکتوبر 2023ئ

سانحہ مستونگ کے متاثرین اپنے وزیر اعظم کی آمد کے منتظر 
اب خیر سے وزیر اعظم بلوچستان عمرہ کی ادائیگی کے بعد وطن واپس آ چکے ہیں۔ اس لیے انہیں پہلی فرصت میں مستونگ کا دورہ کرنا چاہیے۔ بارہ ربیع الاول کے مقدس دن وہ جب حرمین الشریفین میں تھے۔ ان کے اپنے صوبے بلوچستان میں دہشت گرد جنونیوں نے مستونگ جیسے پرامن شہر میں جشن میلاد النبی کے نکلنے والے جلوس میں خودکش دھماکہ کر دیا جس میں اب تک 59 افراد کے شہید ہونے کی اطلاعات ہے، متعدد زخمیوں کی حالت ابھی تک تشویشناک ہے۔ بلوچستان میں ایک بار پھرمسلکی دہشت گردی کے سر اٹھانے سے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے۔مستونگ سانحہ کے ان زخمیوں کی عیادت اور شہید ہونے والوں کے اہلخانہ منتظر ہیں کہ کب ان کے اپنے وزیر اعظم آئیں اور ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور چیف آف آرمی سٹاف عاصم منیر آ چکے ہیں انہوں نے زخمیوں کی عیادت کی اور ان کو بہترین علاج معالج فراہم کرنے کی ہدایات بھی دیں ہیں۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک مستونگ میں اس المناک سانحہ کے شہدا اور زخمیوں کے لیے حکومت کی طرف سے کسی مالی امداد کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس سے منفی پراپیگنڈا کرنے والے عناصر کو شہ مل رہی ہے۔ اور وہ کہتے پھرتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کے خون کی ان کی زندگیوں کی حکومت کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے۔ اس سے قبل جب بھی کوئی ایسا سانحہ کہیں بھی ہو تو فوری طور پر وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف اس سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی رقوم کا اعلان کیا جاتا تھا۔ مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ کیا بلوچستان اور وفاقی حکومت جو بے شک نگراں ہیں ان کے ہاتھ بند ہیں یا وہ اس کام کے لیے بھی آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ خدارا ایسا رویہ نہ رکھا جائے جو بعدازں پشیمانی کا باعث بنے۔ بلوچستان پہلے ہی محرومیوں کا شکار ہے۔ یہاں کے عوام اس کے باوجود صبر اور شکر سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ 
اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہید ہونے والوں نے خاموشی سے اپنے اپنے پیاروں کی تدفین کر دی ہے۔ کسی نے کوئی احتجاجی جلوس نہیں نکالا۔ دھرنا نہیں دیا، ملزموں کی گرفتاری تک شہیدوں کی تدفین نہ کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ ایسے صابر و شاکر متاثرین کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے وزیر اعظم فوری طور پر آ کر ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ 
٭٭٭٭٭
بھارت بنک لاکر میں پڑے خاتون کے 18 لاکھ روپے دیمک کھا گئی
 اگر لاکر میں پڑی رقم اب محفوظ نہیں رہی تو بھارت کس منہ سے خود کو محفوظ ملک قرار دیتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا شاید پہلا کیس ہے کہ بنک لاکر میں پڑی رقم دیمک کھا گئی۔ لاکر تو محفوظ تصور ہوتا ہے اہم کاغذات، زیورات اور رقم رکھنے کے لیے۔ اب یہ کونسا کوئی تیسرے درجہ کا بنک ہے کہ اس کے لاکر بھی محفوظ نہیں۔ آج تک یہی س±نا تھا کہ شاطر چور یا بنک کا عملہ یا ڈاکو اپنی اپنی مہارت سے لاکر توڑ کر کھول کر اس میں یہ رقم زیورات اور کاغذات لے جاتے تھے، مگر یہ غیر انسانی حملہ پہلی بار ہوا ہے کہ دیمک نوٹ کھا گئی۔ وہ بھی ہزار دو ہزار نہیں پورے 18 لاکھ جو اس خاتون نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے محفوظ رکھے تھے۔ اب اس دکھیاری خاتون پر تو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو گا۔ اسے چاہیے کہ پہلی فرصت میں وکیل سے مشورہ کر کے بنک کے خلاف ناقص لاکرز فراہم کرنے پر مقدمہ کر دے تاکہ باقی لاکرز مالکان کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی بہانے یا تو بنک والے ازخود اس خاتون سے مک مکا کر کے معاملہ نمٹا دیں گے یا پھر عدالت اس کی رقم دلوانے کا بندوبست کرا دے گی۔ قدیم دور میں ایسا ہوتا تو عجیب نہیں تھا۔ 
تب لوگ صندوقوں میں مٹکوں میں چمڑے کے تھیلوں میں رقم زیورات اور کاغذات چھپا کر الماریوں میں رکھتے یا زمین میں مٹکوں میں بھر کر دبا دیتے تھے۔ وہاں ان پر چوہے اور دیگر حشرات الارض حملہ کر کے کاغذات وغیرہ کو تباہ کر دیتے تھے۔ اس لیے لوگ زیادہ تر سونا اور چاندی زمین میں دبا دیتے تھے۔ کنجوسوں کے مر کھپ جانے کے بعد یہ خزانہ یونہی دبا رہتا تھا۔
 پرانے عقیدے والے کہتے ہیں ان خزانوں کی حفاظت سانپ کرتے تھے۔ پتہ نہیں انہیں اس کا معاوضہ کون دیتا ہو گا مگر ایک بات ہے ایسے گھسے پٹے بنک سے تو وہ سانپ ہی بھلے تھے جو خزانے کی کم از کم حفاظت تو کر لیتے تھے۔ آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں ایسے ہی قارون صفت لوگوں کے دفینے دریافت ہوتے ہیں جو یہ لوگ اپنی زندگی میں چھپا کر جاتے تھے۔ انہیں ان کے استعمال کی نوبت ہی نہیں ملتی تھی۔ یوں پیسے دبا کر رکھنے کی بجائے اگر اس سے چھوٹا موٹا کام ہی شروع کیا جائے تو اس میں زیادہ برکت ہوتی ہے۔ زر سرکل میں رہے تو باعث رحمت بنتا ہے ورنہ وبال جاں تو ہے ہی۔ 
٭٭٭٭٭
پی ٹی آئی کو سیاست میں نہیں ہونا چاہیے: مولانا فضل الرحمن 
اب ہر خواہش کا پورا ہونا ضروری تو نہیں ہوتا اس کے باوجود انسان اپنے دل و دماغ میں ہزاروں خواہشیں پالتا ہے۔ پورا ہونا نہ ہونا اس کے بس میں نہ بھی ہو پھر بھی وہ ان سے نجات نہیں پا سکتا۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اچھی بات ہو یا بری بات وہ اس کے حوالے سے اپنی خواہشات رکھتا ہے۔ اس لیے چچا غالب نے کہا تھا۔ 
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے 
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
اب مولانا کی پی ٹی آئی کی مائنس سیاست والی خواہش بھی ایسی ہی ہے۔ صرف مولانا ہی نہیں اور بھی بہت سی دوسری جماعتیں بھی دل سے یہی چاہتی ہیں کہ پی ٹی آئی سیاست اور الیکشن کے کھیل سے دور ہو۔ نجانے کیوں ان کے سب کو مقابلے سے خوف آ رہا ہے۔ الیکشن کا سیاست کا مزہ تو تب ہی آتا ہے جب مدمقابل کوئی برابر کا ہو۔ ورنہ چھوٹے موٹے سے لڑنا تو بہادروں کی جی داروں کی توہیں ہے۔ مولانا اپنے جثہ کی طرح اپنا دل بھی بڑا کریں۔ 
اس وقت لے دے کر چند ہی جماعتیں ہی رہ گئی ہیں الیکشن کے میلے میں رنگ جمانے کے لیے۔ مسلم لیگ (نون) پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) انہی کی بدولت محفل میں رنگ جمتا ہے۔ باقی جماعتیں ثانوی نوعیت کی ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں میں رنگ جماتی ہیں جبکہ اول الذکر ملک بھر میں دھینگا مشتی کر سکتی ہیں۔ اس لیے اب خواہش سے تو کچھ نہیں ہونا ہاں البتہ اگر مولانا اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی پر پابندی کی اجتماعی دعائیں کرے۔ ہفتہ نجات منائیں تو شاید ان کی بددعاﺅں کا ہی کوئی نتیجہ سامنے آئے اور مولانا کے من کی مراد پوری ہو۔ باقی ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ کبوتر کی طرف سے آنکھیں بند کرنے کے باوجود بلی کبھی غائب نہیں ہوتی۔ اس لیے فی الحال ایسی بچگانہ خواہش پر یہی کہا جا سکتا ہے۔ 
پپو یار تنگ نہ کر محفل کو بے رنگ نہ کر 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...