نگران حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا ہے۔پٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت میں 11روپے فی لٹرکی کمی کی گئی۔پٹرول کی نئی قیمت 323روپے 38 پیسے فی لٹرمقرر کی گئی جبکہ ڈیزل کی نئی فی لیٹر قیمت 318 روپے 18 پیسے مقرر کی گئی۔ پٹرول اور ڈیزل پر لیوی60اور ڈیزل پر 50روپے فی لٹر برقرار رکھی گئی ہے۔ علاوہ ازیں، اوگرا نے ایل پی جی 20 روپے 86 پیسے فی کلو مہنگی کر دی۔ ایل پی جی کی نئی قیمت 260 روپے 98 پیسے فی کلو مقرر کی گئی ہے۔ ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 246 روپے 15 پیسے مہنگا کر دیا گیا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں یکمشت 18 سے 20 روپے کا ہوشربا اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ اس کی قیمتوں میں کمی چند روپوں یا پیسوں میں کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نگران حکومت ایک ماہ میں تقریباً دو بار پٹرولیم مصنوعات میں ہوشربا اضافہ کر چکی ہے، گزشتہ روز پہلی بار 8 روپے کی کمی کرتے ہوئے حاتم طائی کی قبر پر لات مار کر ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر میں 246 روپے 15 پیسے مہنگا کرکے کئی گنا کسر نکال لی گئی ہے۔ حالانکہ نگران حکومت کی طرف سے عندیہ یہی دیا جا رہا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات میں 19 روپے تک کمی کی جا سکتی ہے مگر جو کمی کی گئی وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں عوام پہلے ہی عاجز ہیں بالخصوص مزدور اور تنخواہ دار طبقہ بری طرح پس رہا ہے جو بھاری یوٹلیٹی بلوں سمیت تمام گھریلو اخراجات اپنی کم آمدنی سے پورا کرنے پر مجبور ہے جبکہ سرکاری افسران اور حکمران طبقات لاکھوں روپے تنخواہ لینے کے باوجود پٹرول، گیس اور بجلی سرکاری خرچے پر استعمال کر رہے ہیں۔ اتحادی حکومت نے سرکاری مراعات واپس کرنے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل درآمد کی نوبت نہیں لائی جا سکی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران طبقات اور سرکاری افسران کی مراعات میں کمی کی جائے اور انھیں بجلی، گیس اور پٹرول کے اخراجات اپنی جیب سے خرچ کرنے کا پابند کیا جائے۔ اس وقت عالمی منڈی میں پٹرول کے نرخ کم ترین سطح پر ہیں مگر ہمارے ہاں پٹرول پر لیوی سمیت کئی قسم کے بھاری ٹیکسز وصول کیے جارہے ہیں جو سراسر ناجائز ہیں۔ ایل پی جی سلنڈر کی قیمت تین ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، غریب آدمی گیس تو کجا لکڑی اور کوئلہ جلانے کی سکت بھی نہیں رکھتا، اگر عوام سے اسی طرح ان کی سہولتیں چھینی جاتی رہیں اور پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اسی طرح اضافہ کیا جاتا رہا تو عوام کے شدید ردعمل کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔