سرکاری ملازمین اور پنشنرز سے محاز آرائی کیوں؟

نقطہ نظر       

 چوہدری ریاض مسعود 
 Ch.riazmasood@gmail.com.
    قیام پاکستان کے فوراً ہمیں جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا تھا ان میں آزادی کا تحفظ ، اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے اثرات، مہاجرین کی آباد کاری، سرمائے کی کمی اور تباہ حال انتظامی اور مالیاتی شعبے کی بحالی شامل تھیں۔ حضرت قائدِ اعظم نے سرکاری اور عوامی تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے جہاں ہمیشہ اپنے وسائل پر بھروسہ کرنے پر زور دیا وہاں سرکاری و نیم سرکاری محکموں اداروں اور بنکوں کے ملازمین کو محنت، دیانتداری اور لگن کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ا±س دور کے م±ٹھی بھر ماہرین اور سرکاری ملازمین نے دِن رات محنت کر کے اس نوزائیدہ ملک کے انتظامی ، اقتصادی اور مالیاتی اداروں کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کر دیا۔ یاد رہے کہ 77سال پہلے آج کے دور کی سہولتوں اور مراعات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن جب جذبے سچے ہوں ، عزم اور حوصلے بلند ہوں، کام کی لگن اور وطن کی سا لمیت ، ترقی و خوشحالی مقصد حیات ہو تو منزل کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ابتدائی چند سالوں میں ہم نے اپنی وسائل پر بھروسہ کیا اور کوئی غیر ملکی قرضہ حاصل نہیں کیا تھا۔ افسوس صد افسوس 1960ءکی دہائی میں ہمارے حکمرانوں نے قرضے لینے کا سلسلہ شروع کیا اور آج ہم دوست ممالک اور آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلانے کی عادی بن چکے ہیں جس سے پاکستان کی ساکھ کو بے پنا ہ نقصان پہنچا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو من وعن تسلیم کر کے ، حاصل ہونے والے قرضوں کو اپنی حکمت عملی اور مالیاتی کامیابیوں سے تعبیر کرتے ہیں حکومت عالمی مالیاتی ادارے کے حکم پر ہی عوام پر مہنگائی بم گراتی ہے ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کرتی ہے تنخواہ دار طبقے اور بوڑھے بزرگ پنشنرز کو رگڑا لگاتی ہے جبکہ ہمارے حکمران، ان کے وزرائ، اراکین پارلیمنٹ بیورو کریسی اور مراعات یافتہ طبقہ ان کی عقابی نظروں سے اوجھل ہی رہتے ہیں۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے7ارب ڈالر کے قرضے کے لیے تنخواہ داروں اور بزرگ پنشنرز پر کٹوتی کا شکنجہ کس ر ہے ہیں۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہمارے وزیرِ خزانہ کہتے ہیں کہ پنشن نے ایک بم کی شکل اختیار کر لی ہے اس کو روکنا ہوگا دوسری طرف ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باوجود عرصہ دراز سے خالی پڑی اسامیوں کو پ±ر کرنے کی بجائے انہیں ختم کیا جارہا ہے جبکہ حاضر سروس ملازمین کی تعداد کو کم کرنے کے لیے کئی محکمے اور ادارے ختم یا ضم کر کے آئی ایم ایف کو خوش کرنے میںمگن ہے سرکاری ملازمین کی تعداد کو کم کرنے کے حکومتی منصوبہ کے تحت ہزاروں سکولوں کی نجکاری بھی کی جارہی ہے جس سے یقینا تعلیم بھی مہنگی ہوگی اور موجودہ شرح خواندگی میں مزید کمی ہو گی ، حکومت کو نہ جانے کیوںنچلے درجے کے سرکاری ملازمین کی معمولی تنخواہیں اوربزرگ پنشنروں کی قلیل پنشن قومی خزانے اور معیشت پر بوجھ لگتی ہے؟کیا حکومت اور اسکی مالیاتی اور معاشی ماہرین کو حکمرانوں ، وزرا، اراکین پارلیمنٹ اور بیوروکریسی پر خرچ ہونے والا بھاری قومی سرمایہ معیشت پر بوجھ نہیں لگتا ؟ ایک جائزے کے مطابق ملک بھر میں 2020ءسے 2024 ء تک کی مدت میں ریکارڈ توڑ مہنگائی ہوئی جس سے جہاں غربت اور بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہو ا وہاں عام استعمال کی ادویات کی قیمتوں میں 50سے 60فیصد اور جانے بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 100سے 150فیصد تک اضافہ ہوا ہے آپ حیران ہو ں گے کہ سرکاری ملازمین مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں ، میڈیکل سفری الاو¿نس ، ہاو¿س رینٹ میں اضافے اور بوڑھے پنشنرز اپنی پنشن میں 50فیصداضافے اور گروپ انشورنس کی رقوم کی واپسی کے لیے عرصہ دراز سے مطالبے کر رہے ہیں۔ لیکن "عوام کی خدمت "کرنے کے ہردم دعوے کرنے والے حکمران مصلحتاً خاموش ہیں دوسری طرف EOBIکے تحت رجسٹرڈ 6لاکھ صنعتی مزدور اس وقت صرف دس ہزار روپے ماہواربڑھاپے کی پنشن لے رہے ہیں جس میں گزشتہ 4سالوں سے کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ اربوں کھربوں ، روپے کے اثاثے رکھنے والے اس ادارے EOBI کے سربراہان اور متعلقہ وزرائ نہ جانے کب اس زیادتی اور ناانصافی کا ازالہ کر کے مہنگائی کے تناسب سے بڑھاپے کی پنشن ، مزدور کی کم از کم ماہا نہ اجرت 37000روپے ماہوار کے برابر مقرر کریں گے۔ نہ جانے حکومت کب اس طرف توجہ دے گی یہ حقیقت ہے کہ اس مہنگائی میں EOBIکی بڑھاپے کی پنشن میں فوری اضافہ انصاف کے تقاضو ں کے عین مطابق ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر سال سرکاری ملازمین او ر پنشنرز کو وفاقی اور صوبائی بجٹ سے پہلے احتجاج اور دھرنے دینے پڑتے ہیں پولیس کی لاٹھیاں کھانی پڑتی ہیں پھر کہیں جاکر حکومت تنخواہوں اور پنشن میںمعمولی سا اضافہ کرتی ہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ایجنڈے کے مطابق تنخواہوں اور پنشن میں سالانہ اضافے موجودہ مراعات پر کٹ لگانے ، لیو اِن کیش منٹ کے رولز تبدیل کرنے ، ریٹائرمنٹ کے موجودہ نظام کو "ا±لٹ پلٹ"کرنے ، فیملی پنشن میں بنیادی تبدیلی کرنے اور رضا کارانہ ریٹائرمنٹ پر جرمانہ کرنے سمیت کئی جابرانہ فیصلے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔حکومت پنجاب نے تو اس سلسلے میں کمال ہی کردیا کہ جو سرکاری ملازم یکم جولائی 2023کے بعد ریٹائر ہوا تھا اِسے پنشن میں ہونے والا 17.50فیصد اضافہ نہیں دیا اور یکم جولائی 2024ءکے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کو پنشن میں موجودہ 15فیصد اضافہ نہیں ملے گا۔ اس طرح کے دیگر فیصلوں پر سرکاری ملازمین اور پنشنروں نے کئی بار احتجاجی مظا ہرے اور دھرنے بھی دئیے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تنخواہ دارطبقے اور پنشنرز کی "مالی قسمت کے فیصلے کرنے والے"پے اینڈ پنشن کمیشن نے ملازمین اور پنشنرز تنظیموں سے کبھی مشاورت کی ہے ؟ حکومت کے اِن جابرانہ اقدامات اور کالے قوانین کے خلاف پاکستان پنشنرز ویلفیرئر ایسوسی ایشن کا ہنگامی اجلاس لاہور میں ہوا جس میں پنشنروں کی بھاری تعداد نے شرکت کی اس سے خطاب کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر حاجی محمد ارشد چوہدری سیکرٹری جنرل چوہدری ریاض مسعود اور دیگر رہنماو¿ں نے کہا کہ حکومت کو پنشنرز کے مالی مفادات سلب کرنے کی بجائے انہیں دینِ اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہیے پنشنرز آئی ایم ایف کے اس ایجنڈے پر عمل کرنے کے خلاف پنشنرز ملک بھر میں احتجاجی جلوس نکالیں گے اور دھرنے بھی دیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ کم آمدنی والے اس طبقے کی کوئی بات نہیں سنتا ہمارے حکمرانوں کی ساری توجہ سرمایہ داروں صنعتکاروں ، بر آمد کنندگان کو ریکارڈ ریلیف دینے اورعوام کو مہنگی بجلی دینے والے آئی پی پیز کے نازو نخرے اٹھانے میں لگی ہوئی ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حکومت کو آئی ایم ایف سے 7ارب ڈالر مل گے ہیں امید پیدا ہوئی ہے جبکہ وزیرِ اعظم اور ان کے وزراءمسلسل یہ دعوے کر رہے ہیں کہ ہماری کامیاب پالیسیوں کی وجہ سے 2023کی 36فیصد مہنگائی اب اگست 2024ءمیں کم ہو کر صر ف2.96فیصد ہو گئی ہے۔ ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائراور بر آمدات میں اضافہ ہو رہا ہے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے شرح سود میں 2فیصد کمی کی گئی ہے ہماری ترسیلات زر بڑھ رہی ہیں اور سٹاک ایکسچینج کا انڈکس اوپرکو جارہا ہے حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ابھی مہنگائی میں مزید کمی ہو گی۔ عوام کو اس قدر خوشخبریاں سنانے کے بعد وزیرِ اعظم اور وفاقی وزیر خزانہ پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ملک سے غربت، بے روزگاری ، ناخواندگی ، نا انصافی ، نا خواندگی، سمگلنگ کا عملاً خاتمہ کرنے کے فوری اقدامات کریں اور اس کے ساتھ ساتھ عام عوام اور خاص کر تنخوا دار سرکاری ملازمین اور بوڑھے بزر گ پنشنروں کے لیے کسی بڑے ریلیف کا اعلان کریں۔ حکومت کو پنشن کے بارے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے اس میں پنشنز محمد یو سف کی پٹیشن پر عدالت عظمیٰ کے جسٹس محمد علی مظہر صاحب نے فیصلہ دیا ہے کہ "پنشن خیرات بھیک اور چندہ نہیں ہے بلکہ یہ پنشنروں کا جائز حق ہے جنہوں نے دِن رات اپنے ادارے کی خدمت کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں پنشن بوڑھے بزرگوں کے لیے ایک چادر کی حثیت رکھتی ہے جس سے یہ نہ صرف کئی مالی مشکلات سے بچ جاتے ہیں بلکہ کسی حد تک با عزت زندگی بھی گزار سکتے ہیں اس لیے یہ حکومت وقت کا بنیادی فرض ہے کہ وہ بوڑھے بزرگوںکو زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرے ان کی پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے فیصد 50 فوراً اضافہ کرے اور ائی ایم ایف کے نادر شاہی حکم کی پرواہ نہ کرے۔ یہ امر تکلیف دہ ہے کہ پاکستان ر یلویز ، ریڈیو پاکستان سمیت کئی اداروں میں عرصہ دراز سے ہر ماہ وقت پر پنشن نہیں ملتی جس کا نوٹس لینا بے حد ضروری ہے ہمارے کئی ترقیاتی اداروں پاسکو سمیڈا اور دیگر کئی نے اداروں میں پنشن سیکم رائج ہی نہیں دوسرے طرف ہمارے ماضی کے مشہور نجی بنکوں کی پنشن ملک میں سب سے کم ہے جس میں عرصہ دراز سے کوئی اضافہ نہیں ہوا ان بنکوں اور کے ہزاروں ملازمین اپنے واجبات ، بقایا جات، پنشن کے تعین اس کی بروقت ادائیگی اور اس میں مہنگائی کے تناسب سے ہر سال اضافے کے لیے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستان ٹیلی ویڑن کے سینکڑوں ریٹائر ملازمین اپنی کمیوٹیشن کے بقایا جات کی ادائیگی میں تاخیر اور 75سال سے زائد عمر کے بزرگ پنشنرز اپنی کمیوٹ شدہ پنشن کی بحالی کے واجبات کے حصول کے لیے کئی بار احتجاج کر چکے ہیں۔وزیراعظم اور وفاقی وزیر خزانہ کو اس بات کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور حکومت طرف سے پنشن میں سالانہ اضافے کے احکامات پر سختی سے عمل در آمد کروایا جائے عوام کی خدمت کا ہر وقت دعوےٰ کرنے والے حکمرانوں کو بزرگ پنشنروں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ان کی آہ اور صدا آسمانوں تک جاتی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پے اینڈ پنشن کمیشن کی 2020کی سفارشات پر عمل درآمد فوراً روک دے اور ان سفارشات کا از سر نو جائز ہ لے۔ تنخواہوں اور پنشن کے بارے میں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر عمل کرنے کی بجائے اسلامی تعلیمات اور احکامات کے مطابق اپنے عوام کے مفاد میں فیصلے کریں۔ ایسا کرنے سے یقینا اپنے رب کو بھی راضی کر لیں گے اور ہم سب اس کی رحمتوں ، برکتوں اور نعمتوں کے بھی حق دار ہوجائیں گے۔ (انشاءاللہ)

ای پیپر دی نیشن