میلی آنکھیں، بہرے کان، بند دماغ، لمبی زبان!

ڈاکٹرعارفہ صبح خان               
تجا ہلِ عا رفانہ         
 محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ائینی ترامیم بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہوتی انہوں نے مزید کہا کہ ملک ٹوٹنے سے بھی ہم نے سبق حاصل نہیں کیا ۔محمود خان اچکزئی کی بات تو 100 فیصد درست ہے لیکن شاید یہ ان کی زندگی کا پہلا مثبت اور حب الوطنی کا بیان ہے ورنہ اس سے پہلے تو ہمیشہ ان کے اندر سے منفی شعائیں ہی نکلتی رہی ہیں ۔محمود خان اچکزئی کو نہیں پتہ کہ ہر غلط کام بند دروازے کے پیچھے ہی کیا جاتا ہے نہ یہاں دیکھتی آنکھیں ہیں نہ سنتے کان اور نہ میٹھی زبان کے جس سے مرحوم طارق عزیز اہل پاکستان کو سلام کیا کرتے تھے آج تو یہ حالت ہے کہ ہر طرف میلی آنکھیں ہیں نہ سنتے کان ہیں ،لمبی زبانیں ہیں کیونکہ ہر شخص کا دماغ بند ہے اور ملفوف ہے ۔جب انسان اپنے اعضا سے صحیح کام نہیں لیتا تو وہ اعضا ناکارہ ہوجاتے ہیں یا غلط کام کرنے لگتے ہیں ۔اب اخلاقیات پاکستان سے رخصت ہو چکی اور خدا کا ڈر یا روز جزا کا خوف یکثر ختم ہو گیا ہے۔ اگر پاکستان میں قیامت کا ڈر ہوتا تو روز قیامتیں نہ ٹوٹتیں۔ پاکستان میں اس وقت ایک بھی ادارہ ایسا نہیں جس پر آپ ایک فیصد بھی بھروسہ کر سکیں۔ کل چیف جسٹس قاضی فائض عیسی نے جو مختصر فیصلہ سنایا ہے اس سے جس کے بارے میں پہلی بار سمجھ میں نہیں آیا ہے۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کلعدم قرار دے کر الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کر لی۔مُنّی بازار میں ناچ کر اتنی بدنام نہیں ہوئی تھی جتنی بدنامی الیکشن کمشنر نے 2024 کے الیکشنز میں اپنے کھاتے میں جمع کی ہیں۔ مخصوص نشستوں کا پوری قوم کو دھیلے برابر فائدہ نہیں ہوا۔ مخصوص نشتوں پر صرف وہ خواتین آتی ہیں جو ارکان پارلیمنٹ کی رشتہ دار ہوتی ہیں ۔یہ نشستیں اقربا پروری، سفارش، رشوت اور جعلسازی پر مشتمل ہیں۔ اکثر عورتیں ایسی آتی ہیں جنہیں پارلیمنٹ کے سپیلنگ تک سے نہیںآ تے۔یہ نشستیں محض تزئین و آرائش اور پارلیمنٹ میں رنگ بھرنے کے مترادف ہوتی ہیں مگر فروری سے لیکر اکتوبر تک ان پحثیں لڑائی جھگڑے چل رہے ہیں کیونکہ ان نشستوں سے کسی ایک پارٹی کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے اور زیادہ نشستوں کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں بہت کچھ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات ہو جاتے ہیں عدالت کے فیصلے نے اس پر مہر ثبت کر دی ہے اب اس ڈرامے کی طرف آئیے جو آئینی اصلاحات کے حوالے سے رچایا ہوا ہے ولیم شکسپئیر زندہ ہوتا تو نواز شہباز آصف زرداری بلاول بھٹو مریم نواز کے ہاتھ پر بیعت کر لیتا اور انہیں زندگی کے حقیقی ڈرامہ نگار مان لیتا۔پوری قوم جس عذاب میں پھنسی ہوئی ہے وہ مہنگائی بے روزگاری اور ٹیکسوں کا وبال ہے۔ آج سے 10 سال پہلے کا پاکستان یاد کریں جب 16 ہزار ا روپے تولہ سونا اور 10 روپے کلوآٹا تھا لوگوں کے چہرے پر سکون تھا اور اگر ہم 25 سال پہلے والے پاکستان کا جائزہ لیں تو پاکستان آج کے مقابلے میں جنت تھا تب سونا 7 ہزار روٹی ایک روپے کی ملتی تھی نہ ٹیکسوں کا وبال تھا نہ ہی مہنگائی کا جن نہ ہی مہنگائی کا جنجال تھا زندگی میں سکون اور چہروں پرطمانیت تھی۔ جسٹس قیوم ملک کے بعد پاکستانی عوام کا سب سے پہلے عدلیہ سے بھروسہ ختم ہوا عوام عدالتوں سے انصاف چاہتی ہیں لیکن کئی دہائیاں گزر جاتی ہیں بیٹے کے بعد باپ اور باپ کے بعد دادا تک کیس چلتے رہتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا ۔وکٹر ہیوگو کی بات ہیرو ںمیں تولنے والی ہے۔ اُس نے کہا تھا کہ میں بچہ تھا تو بھوک سے تڑپ کر روٹی کا ایک چرایا تو مجھے جیل بھیج دیا گیا چھ ماہ بعد روٹی سالن تین وقت دیتے رہے بس یہی انسانوں کی عدالت اور انصاف ہے۔ اب جب کہ پورا پاکستان قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے جو بچے دنیا میں نہیں آئے وہ بھی کئی سو ڈالروں کے مقروض ہیں ۔حال ہی میں آئی ایم ایف نے سات ارب ڈالر قرض منظور کر لیا ہے اور یہ اُنکا پچیسواں پروگرام ہے۔ قیاس آرائی مبنی برحقیقت ہے کہ موجودہ حکومت دسمبر تک ختم ہو جائے گی یہ سات ارب ڈالر حکومت ہڑپ کر جائے گی ۔اس سے پہلے بھی آئی ایم ایف اب تک جو سینکڑوں ارب ڈالر قرضہ دے چکا ہے وہ بھی یہی حکومت نگل چکی ہےا¿ حکومت ختم ہوتی توکوئی لندن کوئی دبئی کوئی امریکہ اور کوئی کینیڈ اچلا جائے گا ۔کیا کبھی کسی بند دماغ میں یہ سوال اٹھائے کہ سارا قرضہ کون اور کیسے دے گا آئی ایم ایف ہم جیسے کنگلوں کو قرضے پر قرضے پاکستانیوں کو کیوں دے رہا ہے یہ آئی ایم ایف کی وجہ سے پاکستانیوں کو ٹیکسوںکے شکنجوں میں جکڑ دیا گیا ہے پاکستانیوںپر مہنگائی کا عذاب مسلط ہے 7ہزار روپے تولہ بکنے والا سونا اب پونے تین لاکھ میں فروخت ہو رہا ہے ۔ٹیکس کے عوض سہولیات دی جاتی ہیں لیکن حرام ہے کہ عوام کو ایک سہولت میسر ہو پھر ٹیکسوں کا کیا جواب۔ ٹیکس لگانے کی ٹھوس وجوہات اور ان کے بدلے میں سہولیات بتائی جاتی ہیں ورنہ سب ٹیکس اڑا دیے جاتے ہیں ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف جیسے اندھوں کو غریب پاکستانیوں کی بوٹیاں اور ہڈیاں چھچوڑنے میں مزہ آ رہا ہے تو اشرافیہ پر ٹیکس کیوں نہیں لگاتی۔ آئی ایم ایف اورپاکستانی حکومت کا سارا زور غریب مجبور بیمار سفید پوش پنشنرز پر ہے کہ پینشنر زکو چند ہزار روپے ملتے ہیں وہ بھی بند کر دئیے جا ئیں تاکہ سب فاقوں سے مر جائےں۔ آئی ایم ایف کو نظر نہیں آرہا کہ ارکان قومی اسمبلی کی عیاشیاں عروج پر ہیں اور حال ہی میں سینیٹرز نے اپنی تنخواہوں اور مرعات میں اضافے کا اختیار سینٹ کو ڈاریکٹ دینے کی ترمیم پیش کر دی ہے یعنی اس طرح تنخواہیں اور مراعات بڑھیں گی۔ پنجاب حکومت نے کل ہی وزراءکے لیے کروڑوں کی 76 نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری د ے دی ہے۔ آئی ایم ایف اب کیوں گونگا بنا ہوا ہے۔ کوئی پوچھے کہ یہ لوگ کیا قومی خدمت انجام دے رہے ہیں مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ اب تک سینٹ اور نیشنل اسمبلی میں جتنے بل منظور کرائے جاتے ہیں وہ سب کے سب ان کے مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔ کسی کا بھی تعلق عوامی فلاح و بہبود سے نہ ہے۔ مختلف اداروں کی پینشن میں زیادہ اضافہ کیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ دونوں کی چمڑی قابلیت اور شہریت میں کیا فرق ہے ۔ کیا خزانہ پر بوجھ نہیں پڑے گا وہ نوجوان جو ایم اے، ایم ایس سی، ایم فل ،پی ایچ ڈی ،ایم بی اے کی ڈگریاں لے کر مارے مارے پھررہے ہیں اِن کے لیے تو کوئی روزگار نہیں مگر ججوں کی ریٹائرمنٹ میں تین سال کے اضافے کے لیے قومی خزانے کا منہ کھول دیا گیا ہے سب کچھ اپنی مفادکے لیے کیا جا رہا ہے ۔یوں لگتا ہے ہر ادارے میں کٹھپتلیاں بیٹھی ہیں کوئی ماورائی طاقت ہے جو سب کو نچا رہی ہے ۔ سابق نگران وزیراعظم چند ماہ میں جو آدھی دنیا کے سیروسپاٹے کیے وہ قومی خزانے سے کیے اور وہ بھی پورے خاندان اور اپنے تمام دوستوں کو ساتھ لے کر گئے۔ ابھی وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ نے دو درجن ممالک کے مزے لوٹ چکے ہیں ۔داخلہ کی حدود تو ملک کے اندر ہوتی ہیں باہر نہیں ہوتی مگر وہ آج اگر امریکہ میں ہے تو کل فرانس میں نظر آئیں گے کبھی سعودی عرب تو کبھی دبئی جائیں گے۔ آئی ایم ا یف اندھا ہے کہ اُسے یہ سب عیاشیاں نظر نہیں آتی۔ 25 کروڑ عوام دن رات اذیتوں کی چکی میں پستی ہے مگر سب گونگے بہرے اندھے لولے لنگڑے اور اپاہج ہیں کہ بلوں کی ادائیگی، مہنگائی، بھوک، افلاس نے سبکی آنکھیں اور دماغ بند کر دیے ہیں ورنہ کسی کی مجال تھی کہ فائلر اور نان فائلر میں لوگوں کو تقسیم کر کے اپنے ہی وطن میں مجرم بنایا جا رہا ہے کہ نان فائلر پراپرٹی نہیں خرید سکتا گاڑی نہیں لے سکتا ملک سے باہر نہیں جا سکتا نان فائلر سانس نہیں لے سکتا ۔غریبوں کے چند ہزار روپے پر بھی ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور اپنے اربوں کھربوں کی ناجائز اثاثوں پر کوئی نظر نہیں ڈال سکتا ایسا ہے میرا پیارا ملک اور اس کا انصاف۔۔۔۔۔ دیکھنا ہم سب مر جائیں گے اور یہ حکمران 25 کروڑ مُردوں کی ہڈیوں پر حکومت کریں گے جو بد رُوحیں بن گئے تو سُورگ ایکدم نرگ بن جائے گا۔ 
    

ای پیپر دی نیشن