آپ کی کشتی ڈوبنے نہیں دے گا


مروہ خان میرانی
ایک دفعہ انتہائی خوبصورت قول کسی سکالر سے سنے کا اتفاق ہوا جو ایمان تازہ کر دیتا ہے :
"اللہ سبحانہ وتعالی پر بھروسہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ سمندر میں کشتی پہ سفر کرےہو اور اللہ تعالیٰ طوفان آپ کی راہ میں نہیں بھیجے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ پہ توکل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے سفر میں طوفان آئے گا پر اللہ تعالیٰ آپکی کشتی ڈوبنے نہیں دےگا"۔
(اور جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اسے وہ کافی ہو جاتا ہے)-(65:3)
تو پھر جس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی کافی ہو جائے اس کو اپنی زندگی کے معاملات کی پرواہ کیسی؟ 
توکل دراصل عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہے کسی کام یا معاملے کو کسی کے سپرد کرنے کے ہیں یا یہ کہ کسی پر مکمل اعتماد کیا جائے۔ 
توکل اللہ یعنی کہ ہر معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سپرد کر دینا۔ ہر شخص اپنے مستقبل کے بارے میں مستقل سوچتا ہے، اور بہت سارے لوگ مسلسل اپنے آنے والی زندگی کی پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام کی پشت سے سب روحوں کو نکالا اور ہم کلام ہوا۔ اور پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ہم سب اپنی تخلیق کے وقت، اپنے رب العزت اور خالق و مالک کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے تھے۔ ہمارے اردگرد کون سی روحیں تھیں نہ کوئی رشتہ نہ کوئی خاندان نہ دوست احباب اور نہ ہی کوئی جان پہچان۔ ہم نے جانا اور پہچانا تو صرف اپنے خالق اللہ سبحانہ و تعالی کو۔ اور بھروسہ کیا تو صرف اس ذات کا جس نے ہمیں پیدا فرمایا تھا، وہ واحد ہستی جس سے ہمارا ناتا بنا۔ تو پھر دنیا میں آکر ہم یہ بات کیسے بھول جاتے ہیں کہ جس رب تعالی نے ہمیں پیدا فرمایا ہے دنیا میں بھیج کے وہ ہمارا خیال نہیں رکھے گا۔ اور اگر رکھے گا تو نعوذ باللہ کیا اس کی شان کے مطابق اس کی محبت، ہمیں پالنے اور ہمارا خیال رکھنے میں کمی واقع ہو جائے گی؟ 
ہمارا توکل اپنے رب پہ اس طرح ہونا چاہیے جس طرح بچپن میں ہمارے ماں باپ نے ہمیں پالا۔ جب ہم اس دنیا میں آئے ہمارے ماں باپ نے ہمیں کھلایا پلایا پہنایا سلایا اٹھایا اس وقت نہ ہمیں عقل تھی نہ شعور جو ہمارے والدین ہمارے ساتھ معاملہ رکھتے تھے ہمیں پتہ تھا کہ وہی ہمارے لئے صحیح ہے تو پھر رب تعالی ہمارے ان ماں باپ کا بھی خالق ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے مستقبل یا ہماری زندگیوں اور ہمارے آنے والے لمحات سے بے خبر ہے اور وہ ہمیں چھوڑ دے گا اور مزید ہمیں نہیں سمبھالے گا نعوذ باللہ۔ اللہ پہ توکل ایسا ہونا چاہیے جیسے ایک پرندے کو ہوا میں اڑتے وقت بھروسہ ہوتا ہے اپنے پروں پر نہیں بلکہ اپنے خالق پر کہ وہ اس کو زمین پر گرنے نہیں دے گا۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم زندگی میں اپنے رب سے زیادہ اس ہی کے دیے گئے اسباب پہ توکل رکھتے ہیں۔ اموال، پیسہ، دولت، رشتے ناطے اور انسانوں پر۔ اگر یہ سب کچھ حاصل ہوگیا تو ہم زندگی محفوظ گزاریں گے نہیں تو ہماری زندگی کی کشتی ڈوب جائے گی۔ 
یقین جانیے آپ زندگی میں جس بھی عمر کے حصے میں ہے اب تک آپ محفوظ طریقے سے اس دنیا میں موجود ہیں اور حیات ہیں۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالی ہی ہے جو اپ کو یہاں تک لایا ہے۔ کچھ ایسا زندگی میں حالات واقع نہیں ہوا کہ آپ دنیا سے ہی رخصت ہو جاتے اورسانسیں چل رہی ہیں، تو آئندہ زندگی میں بھی وہ آپ کو محفوظ رکھیے گا۔ انشاءاللہ! 
اور اگر کسی غم سے آپ کی اس دنیا سے رخصتی ہو بھی جاتی تو وہ بھی آپ کے حق میں بہتر تھا کیونکہ وہ جاننے والا ہے کہ مزید رہ کے آپ نے اس دنیا میں گنہگار ہی ہونا تھا۔ اس ذات پہ بھروسہ رکھیں جس طرح اس پہ بھروسہ رکھنے کا حق ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں آپ علیہ السلام کی ایک شخص سے بات چیت ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے تو اس شخص نے کہا کہ میں نے اپنے دوپہر کا کھانا کھا لیا ہے کچھ رات کے لیے بچا لیا ہے۔ تو حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا تم نے کھانا کیوں بچایا کیا تمہیں اپنے رب تعالی کی ذات پہ شک ہے کہ رات کو وہ تمہیں رزق عطا نہیں کرے گا۔ اللہ اکبر
اللہ تعالی جو فرماتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں۔ تو جو شخص منفی توقعات رکھتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالی اس کے گمان کے مطابق ہی اس کو نوازے گا۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے۔
"بےشک اللہ توکل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے"- (سورہ ال عمران: 159)
ہمارا رب تعالی تو ایسا نگہبان و حفاظت فرمانے والا ہے جب اس پر بھروسہ کیا جائے۔ جیسے اصحاب کہف کا واقع، جن کو نیند میں کئی سال دھوپ کی تپیش سے محفوظ رکھا اور خود کروٹ بدلواتا رہا۔ "اور غار ایسا تھا کہ تم سورج کو نکلتے وقت دیکھتے تو وہ ان کے غار سے دائیں طرف ہٹ کر نکل جاتا اور جب غروب ہوتا تو ان سے بائیں طرف کترا کر چلتا جاتا"۔ 
اور پھر نیچے آیت میں ذکر آتا ہے: 
" اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے"۔ (سورہ کہف، آیت: 18-17)
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ وقت یاد کیجئے جب فرعون کے ڈر سے وہ دوڑ کے مدین کی طرف گئے۔ اور پھر دعا فرمائی 
"میرے پروردگار جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کر دے میں اس کا محتاج ہوں"- (سورہ قصص: 24)
اور پھر موسی علیہ السلام کے گمان کے مطابق اللہ تعالی نے ان کو رزق، خاندان، رہنے کی جگہ، سب کچھ میسر کیا جب وہ بالکل خالی ہاتھ تھے، یہاں تک کہ نبوت بھی۔
چند دن پہلے مجھ سے کسی نوجوان نے سوال کیا۔ کہ میری اللہ سبحانہ و تعالی سے انسیت اور محبت کیسے حاصل ہو سکتی ہے جبکہ میں نے اپنے رب کو کبھی دیکھا نہیں۔ جیسا کہ ہماری اپنے والدین کے ساتھ محبت ہوتی ہے کیونکہ ہم تو ان کو اپنی انکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں؟
اللہ تعالی سے بھی محبت اور توکل کا تعلق بالکل ویسا ہی ہے جیسے کے آکسیجن کا، ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے پر ہم اس کو اپنے علم اور شعور سے جانتے ہیں۔ آکسیجن نہ ملی تو سانس بھی نہیں رہے گی۔ یہی تو ایمان بالغیب ہے۔ کہ اس کو دیکھے بغیر اس پہ ایمان لایا جائے۔ اللہ نے ایمان لانے پہ بھی جبر نہیں کیا۔ وہ چاہتا تو ہر ایک انسان کو مسلمان بنا دیتا۔ پر وہ چاہتا ہے کہ ہم عقل و شعور سے اس کو پہچانیں اس پہ ایمان لائیں۔ اس لیے یہ ہمارا اختیار و انتخاب ہے کہ ہم اس پہ توکل کریں یا شیطانی وسوسوں میں رہ کر پریشان رہیں۔ اشفاق احمد صاحب کی زاویہ میں کہی گئی بات بہت مشہورِ زمانہ ہے۔ کہ اگر ہم سب اپنی اپنی مشکلات کو بوری میں ڈال کر میز پر رکھ دیں۔ تو کوئی کسی دوسرے کی بوری نہیں اٹھائے گا بلکہ سب اپنی اپنی واپس لے جائیں گے۔ سبحان اللہ۔
کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے لیے جو فیصلہ کرتے ہیں اور جس حال میں رکھتے ہیں اس کو ہم سے زیادہ علم ہوتا ہے ہمارے حق میں کیا بہتر ہے۔ وہی العلیم ہے جس کے معنی ہیں سب سے زیادہ جاننے والا اور ہر وقت جاننے والا۔ اس کے علم کا کمال یہ ہے کہ ہر شے پر اس کا علم محیط ہے۔ ظاہر ہو یا پوشیدہ چھوٹی ہو یا بڑی اول ہو یا اخر۔ الغرض اس کا علم اتنا کامل ہے کہ کسی اور علم والے کے لیے تصور بھی ممکن نہیں۔ جو زندہ کو پانی میں ڈبونے اور مردہ کو پانی میں تیروانے کی قدرت رکھتا ہے۔
پروفیسر رفیق اختر صاحب کی ایک شخص سے سوال کی بہترین توکل پہ وضاحت سنیے۔ سوال :سر میں نے ایک لیکچر میں سنا تھا کہ "لا حول ولا قوة الا باللہ“ کی تسبیح پڑھنا کیسا یے۔تو آپ نے کہا تھا کہ یہ تسبیح ذرا سوچ سمجھ کے پڑھنا۔ویسے تو یہ شیطان کو بھگانے کے لیے ہے۔سر اس سے کیا مراد ہے ؟
جواب: دیکھو ہمارے لوگ عموماً اس کو شیطان بھگانے کے لیے پڑھتے ہیں مگر اگر انسان کو خدا کی طرف جانا ہو نا تو یہ سب سے بڑی تسبیح ہے۔ دیکھو ہم کہتے ہیں کہ جی اپنے ہاتھ میں نہ لو خدا کے فیصلے، ہم لیتے ہیں ناں۔؟ تو ابھی تو خدا نے فیصلہ ہی نہیں کیا ہوتا۔
فرض کرو کہ بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ وہ بیچارہ آیا ہی نہیں۔ تو تم نے چھ نام رکھے ہوتے ہیں اس کے۔تو خدا سے پہلے فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔یہ ہے 
اور جو خدا نے فیصلے کرنے ہیں اسکو اپنے ہاتھ میں نہ لو۔اسکا اصلی مطلب بتاوں کہ جو خدا نے فیصلے کرنے ہیں وہ اپنے ہاتھ میں نہ لو۔جو اپنے ہاتھ سے کرنے ہیں وہ خدا کے سپرد کر دو۔اب سمجھ آئی۔۔۔؟
بھءجو خدا نے فیصلے کرنے ہیں ان میں دخل نہ دو وہ تمہارے نہیں ہیں تم زبردستی ان فیصلوں کو اپنا سمجھتے ہو۔ اگلے سال کیا ہوگا مکان بنے گا ،نہیں بنے گا۔۔۔۔تم فضول فکروں میں پڑے ہوتے ہو۔ وہ ساری باتیں اللّہ کے ذمے ہیں۔
 نوکری ملے گی نہیں ملے گی. او بھائ..! آرام سے امتحان دے کر بیٹھ جاو۔ تمھارا کام امتحان دینا ہے۔
لا حول ولا قوة الا باللہ .... اس کا مطلب ہے۔۔۔نہ میری قوت، نہ میرا ارادہ۔۔۔جو کچھ ہے میرے اللّٰ? کا ہے۔
پھر میں کیا کرتا ہوں۔۔۔۔ اگر میں چالاک آدمی ہوں تو سب سے بڑی چالاکی یہی ہے کہ میں اپنے کام سے فارغ ہوا۔ اور میں نے کہا اللّٰ? میاں۔۔۔ سنبھال تو مالک ہے، تو کریم ہے ،مجھے بھی تو سمیٹ لے جیسے تو چاہتا ہے، ویسے گزار دے مجھے۔۔
پھر اللّٰہ کسی کا برا نہیں چاہتا
 میں نے لکھ دیا ہے کہ میں اپنے بندوں پر مہربانی کروں گا۔ 
اللہ کے ہاتھ میں بات چلی جائے تو پھر آپ کو کوئی خطرہ نہیں رہتا۔۔۔۔!۔۔۔ اللہ ھو اکبر۔ 
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم ان چند مسلمانوں میں سے بن جائیں جن کا زندگی میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور اسباب پہ توکل نہ رہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے یہ دعا فرمائی:
"اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو آپ پر بھروسہ کرتے ہیں اور آپ ان کے لیے کافی ہوجاتے ہیں آپ سے ہدایت کے طالب ہوتے ہیں ،آپ ہدایت دیتے ہیں۔مغفرت کے طالب ہوتے ہیں آپ ان کو معاف فرمادیتے ہیں۔
الہی امین اور اس کے ساتھ ساتھ ان 70 ہزار لوگوں میں بھی ہمیں اور ہمارے والدین کا شمار کرے جو بنا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے صرف اس وجہ سے کہ ان کا توکل صرف اور صرف اپنے رب تعالی پہ تھا۔ اللہم امین

ای پیپر دی نیشن