ڈاکٹر ناصر خان
اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں لبنان اور یمن پر حملے کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ خطے میں مسلم ممالک کو طاقت کے ذریعے دبانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ حملے ایک واضح پیغام ہیں کہ اسرائیل نہ صرف فلسطین کے تنازع تک محدود ہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور انہیں اپنے عسکری اقدامات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔لبنان اور یمن جیسے ممالک پر حملے کرکے، اسرائیل اس خطے میں اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے، اور بالواسطہ طور پر ایران جیسے مسلم ممالک کو چیلنج کر رہا ہے جو حوثیوں اور حزب اللہ جیسے گروہوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ عمل ایک وسیع تر اسٹریٹجک منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد خطے میں اسرائیل کی برتری کو مستحکم کرنا اور مسلم ممالک کے درمیان خوف اور دباو پیدا کرنا ہے۔یہ صورتحال خطے میں مزید انتشار اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ مسلم ممالک اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے لبنان پر حالیہ حملہ، جس میں تقریباً 558 لبنانی شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ایک شدید انسانی المیے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اس حملے میں 50 بچے اور 94 خواتین بھی ہلاک ہوئیں، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عام شہری، بشمول خواتین اور بچے، جنگوں اور تنازعات کا سب سے بڑا نشانہ بن رہے ہیں۔ مزید یہ کہ تقریباً 2000 افراد اس حملے میں زخمی ہوئے، جن میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہو سکتی ہے۔
لبنان اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی تاریخی طور پر 1980 کی دہائی سے چلی آ رہی ہے، جب 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تھا۔ حزب اللہ کی تشکیل بھی اسی دوران ہوئی، جو اسرائیلی قبضے کے خلاف ایک مزاحمتی گروہ کے طور پر سامنے آیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کی جڑیں کافی گہری ہیں، اور اسرائیل اکثر حزب اللہ کو اپنے شمالی علاقوں کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔
یہ حالیہ حملہ ایک وسیع تر تنازعے کا حصہ ہے، جو غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ حملے حزب اللہ کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں، جس کا مقصد اپنے شمالی علاقوں سے بے گھر کیے گئے اسرائیلی شہریوں کی واپسی کو ممکن بنانا ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان یہ تصادم نہ صرف لبنان اور اسرائیل کے لیے، بلکہ پورے خطے کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ حزب اللہ اور ایران کے درمیان قریبی تعلقات ہیں، اور یہ خدشہ موجود ہے کہ ایران بھی اس تنازعے میں براہ راست شامل ہو سکتا ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح، اسرائیل کے اتحادی امریکہ کی بھی اس تنازعے میں مداخلت کا امکان بڑھ جاتا ہے، کیونکہ امریکہ نے پہلے ہی خطے میں اپنے مزید فوجی دستے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کا بیان کہ اسرائیل کی جنگ ایک "نئے مرحلے" میں داخل ہو چکی ہے اور شمال کی جانب حزب اللہ کے خلاف "فوجوں، وسائل اور توانائی" کی دوبارہ تعیناتی ہو رہی ہے،
گیلنٹ کے مطابق، یہ اقدام اسرائیل کی جانب سے ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ تھا، جس کا مقصد 65,000 اسرائیلی شہریوں کو واپس لانا تھا۔ یہ وہ افراد تھے جنہیں جنگ کے ابتدائی دنوں میں حزب اللہ کے ممکنہ حملوں کے خدشے کے پیش نظر لبنان کی سرحد کے قریب واقع ان کے گھروں سے نکالنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب اسرائیل کو لبنان کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور حزب اللہ کی جانب سے کسی بڑے حملے کا خطرہ لاحق تھا۔
حزب اللہ نے یہ بیان جاری کیا گیا ہےہے کہ وہ اسرائیل پر اپنے حملے اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک کہ اسرائیل غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے تک نہیں پہنچ جاتا۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ حزب اللہ، جو حماس کا مضبوط اتحادی ہے، اسرائیل پر دباو ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ غزہ میں جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔حزب اللہ اور حماس دونوں گروہ ایک دوسرے کے مضبوط اتحادی ہیں اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ حزب اللہ نے غزہ کی جنگ میں حماس کی حمایت کا عزم کیا ہوا ہے اور وہ اس تنازع کو اسرائیل کے خلاف ایک وسیع تر محاذ کے طور پر دیکھ رہا ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں، اسرائیل کے فوجی ترجمان نے کہاہے "ہم اپنے تمام شہریوں کو شمالی سرحد پر بحفاظت واپس لانے کے لیے جو کچھ بھی ضروری ہوگا کریں گے۔"
اسرائیل نے اپنا اگلا ظلم اس وقت ڈھایا جب اس نے یمن میں حوثی اہداف پر فضائی حملے کیے، جو ایران نواز جنگجووں کی جانب سے اسرائیل پر داغے گئے میزائلوں کے جواب میں کیے گئے تھے۔ اسرائیلی فوج نے بیان میں کہا کہ ان حملوں میں درجنوں طیارے شامل تھے جنہوں نے الحدیدہ اور راس عیسیٰ کے بجلی گھروں اور سمندری بندرگاہوں کو نشانہ بنایا۔۔ یہ گزشتہ دو ماہ میں یمن پر اسرائیل کا دوسرا حملہ تھا۔ اس سے قبل جولائی میں اسرائیلی فضائی حملہ اس وقت کیا گیا تھا جب یمنی ڈرون نے تل ابیب پر حملہ کیا تھا۔اسرائیلی فوج نے حوثیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کی ہدایت اور مالی معاونت کے تحت کام کر رہے ہیں اور عراقی ملیشیاوں کے ساتھ مل کر خطے کو غیر مستحکم کرنے اور عالمی نیویگیشن میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حوثیوں نے بارہا اسرائیل کو نشانہ بنایا ہے، خاص طور پر غزہ کی جنگ کے دوران فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر میزائل داغے ہیں۔ایران نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی، جبکہ حوثیوں کے ترجمان محمد عبدالسلام نے کہا کہ یہ حملے انہیں غزہ اور لبنان کی حمایت سے نہیں روک سکتے۔ یہ واقعہ اس وسیع تر علاقائی تنازعے کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ایران کی حمایت یافتہ گروہ جیسے حوثی اور حزب اللہ اسرائیل کے خلاف سرگرم ہیں۔
خونی کھیل جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل نے شروع کیا ہے، یہ واقعی اس خطے کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ جنگ اور تشدد کا یہ سلسلہ نہ صرف غزہ اور لبنان جیسے علاقوں میں انسانی جانوں کا ضیاع اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی کا سبب بن رہا ہے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کا خطرہ بڑھا رہا ہے۔اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے حملے، چاہے وہ حماس، حزب اللہ یا حوثیوں کے خلاف ہوں، خطے کے دیگر ممالک کو بھی اس جنگ میں ملوث کر سکتے ہیں، خاص طور پر ایران اور اس کے اتحادی گروہ جو اسرائیل کے خلاف مسلسل ردعمل دے رہے ہیں۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر بھی بڑے تنازعے کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ اس میں بڑی عالمی طاقتیں، جیسے کہ امریکہ اور ایران، بھی کسی نہ کسی طرح شامل ہیں۔اگر یہ کشیدگی اسی طرح بڑھتی رہی، تو مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک جنگ کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں، جو نہ صرف انسانی جانوں کے لیے بلکہ اقتصادی اور سیاسی سطح پر بھی اس خطے کے لیے تباہ کن ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر اس تنازعے کے حل کے لیے مداخلت کرے تاکہ مزید خونریزی اور تباہی سے بچا جا سکے۔
ڈاکٹر ناصر خان