سیر ت النبی کے اہم پہلو (۱)

اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب رحمت دو عالم سرور کو ن و مکاں نور مجسم خاتم النبین کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے صدیوں کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ عزم و استقلال ہو یا پھر توکل علی اللہ ، عفو درگزر کا معاملہ ہو یا پھر اعلی ظرفی ، تواضع و انکساری ہو یا پھر ایثار۔ حضور نبی کریم ﷺکی حیات طیبہ سے ہر معاملے میں رہنمائی ملتی ہے۔ 
اسلام کی دعوت و تبلیغ کے آغاز میں حضور نبی کریم ﷺ کو بہت ساری مشکلات پیش آئیں۔ آپ کو تکالیف دی گئیں۔ مشرکین مکہ کی جانب سے آپ کا مذاق اڑایا گیا۔لیکن آپ کا عزم و استقلال کم نہ ہوا۔ کفار مکہ نے حضرت ابو طالب کو کہا کہ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں انہوں نے ایسے الفاظ بولے کہ حضرت ابو طالب بھی پریشان ہو گئے اور آپ کے پاس تشریف لائے اور کفار مکہ کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں اور اپنی مجبوریوں کا ذکر کیا اور کہا کہ میرے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈالو۔ آپ نے فرمایا:”اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لا کر رکھ دیں تو میں پھر بھی اپنے کام سے نہیں رکو ں گا یا تو اللہ تعالیٰ مجھے اس میں کامیابی عطا کرے گا یا اس راہ میں کام آجاﺅں گا۔ 
یہودیوں کا بہت بڑا عالم عمرو بن حصین اپنے ساتھیوں اور بہت ساری کتابوں کے ساتھ آپ کے ساتھ مناظرے کے لیے آیا۔ ابھی ملاقات کا آغاز ہی ہوا تھا کہ یہو دیوں کا عالم عمرو بن حصین کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ اس کے ساتھیوں کو بہت ندامت اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے عالم کے ساتھ لڑ پڑے۔ لیکن عمرو بن حصین کہتے ہیں کہ جب میں نے رخ مصطفی کو پہلی نظر میں دیکھا تو میرے دل نے یہ گواہی دی کہ ” یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا “اور میں مسلمان ہو گیا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے باہر کسی جگہ درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے۔ ایک کافر آپ کو سوتے ہوئے دیکھ کر آپ کے قریب آیا اور بولا اب تجھے میری تلوار سے کون بچائے گا۔ آپ کا اللہ تعالیٰ پر توکل تھا کہ میرا رب میری حفاظت فرمائے گا آپ نے کہا میرا اللہ۔
 یہ سن کر کافر کی تلوار زمین پر گر گئی تو آپ نے پوچھا اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا تو اس کے اوپر سکتہ طاری ہو گیا۔ آپ نے فرمایا جا میں نے تجھے اللہ تعالیٰ کے لیے معاف کیا۔ یہ سن کر آپ کو شہید کرنے کے ارادہ سے آنے والا آپ کی شفقت دیکھ کر آپ پر فدا ہو گیا۔

ای پیپر دی نیشن