بدھ ‘27 ربیع الاول 1446ھ ‘ 2 اکتوبر 2024

شہبازشریف کی تقریر اقوام متحدہ کے چینل پر سب سے زیادہ سرچ کی گئی۔
اب اسےشہباز کی پرواز کہیں یا اونچی اڑان۔ ان کی تقریر ٹاپ ٹرینڈ بنی رہی۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقوام متحدہ میں وزیراعظم پاکستان کی تقریر پاکستانی عوام کے دل کی آواز تھی۔ انہوں نے فلسطین‘ لبنان‘ کشمیر کے علاوہ اسرائیل اور بھارت کے ساتھ افغانستان کے حوالے سے جو دبنگ خطاب کیا‘ وہ ان سے پہلے کے وزرائے اعظم اور صدور کے نقابلے میں خاصہ وزن دار تھا۔ انہوں نے کسی مصلحت کے بغیر سب کچھ کھلے الفاظ میں اقوام عالم کے سامنے رکھا۔ اور تو اور ماحولیات‘ معاشیات اور امن کیلئے پاکستان کی قربانیوں کو بیان کیا۔ بھارت اور افغانستان کا اصل چہرہ اور دہشت گردوں سے انکے تعلق کو عیاں کیا۔ اب اس تقریر سے اس جماعت کے پیروکاروں کو بہت پریشانی ہوئی ہوگی۔ جو آئے دن اپنے بانی کی تقریر کے تذکرے کرتے نہیں تھکتے۔ وہ تو ٹرمپ کی ٹیلی فون کال کیلئے ساری رات جاگتے رہے مگر فون نہیں آیا۔ جبکہ شہبازشریف نے امریکی صدر جوبائیڈن کے عشائیہ میں شرکت کی اور ان سے موقع دیکھتے ہی ملاقات بھی کر ڈالی۔ عرب ممالک پہلے ہی انکے ساتھ ہیں‘ اب تو روس سے بھی دوستی کی گاڑی چل پڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے یوٹیوب چینل پر شہبازشریف کی تقریر سب سے زیادہ دیکھی اور سنی گئی۔ یہ مسلم لیگی نہیں کہہ رہے‘ خود اقوام متحدہ کے ذرائع نے یہ بات بتائی ہے۔ اب اس بارے میں اپوزیشن والے خدا جانے کون کون سی کہانیاں سنا کر اسے جھوٹی رپورٹ قرار دے کر طرح طرح سے اس کا مذاق بھی بنائیں گے۔ اس کام میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کا سیل کافی متحرک ہے اور کوئی بھی کہانی پیش کرکے اسے حقیقت ثابت کرتے رہیں گے۔
بلاول کے وفاقی حکومت پر وار‘ 400 ڈالر کا سیلاب فنڈ کھا لیا۔
نجانے بلوچستان کی آب و ہوا میں کیا بات ہے کہ وہاں جو بھی جاتا ہے‘ اسکی زبان شعلے اگلنے لگتی ہے۔ سچ کہیں تو اب باقی تین صوبوں میں بھی یہی کچھ ہوتا نظر آتا ہے۔ مرکز گریز پالیسی سیاست دانوں کا پسندیدہ موضوع بن گیا ہے۔ خیبر پی کے والے آئے روز وفاق پر چڑھائی کی تیاری کرتے ہیں۔ سندھ میں اتحادی حکومت ہونے کے باوجود وفاق پر کبھی پانی‘ کبھی بجلی اور کبھی ترقیاتی فنڈز ہڑپ کرنے کی بات ہوتی ہے۔ اب لے دے کر رہ جاتا ہے پنجاب۔ ورنہ بلوچستان تو دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ وہاں جا کر پیپلزپارٹی کے چیرمین جو خود کو نوجوان لبرل کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں‘ اچانک قومی کی بجائے صوبائی رہنما بن جاتے ہیں۔ اب گزشتہ روز بلاول نے کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے الزام لگایا جو خدا جانے کس حد تک درست ہے کہ عالمی اداروں نے گزشتہ سال سیلاب متاثرین کیلئے400 ملین ڈالر کا جوفنڈ دیا تھا وہ مرکزی حکومت نے اپنی جیب میں ڈال لیا اور سندھ اور بلوچستان کے متاثرین کو کچھ نہیں ملا۔ اب اسکے بعد باقی کیا رہ گیا تھاکہنے کو کہ اگلا وار یہ بھی کیا کہ آئینی ترمیم بل پر پیپلزپارٹی والے رضامند نہیں تھے۔ اس پر تو پی ٹی آئی اور جے یو آئی والے شادیانے بجا رہے ہوں گے کہ لو جی جو ہم کہتے تھے آج حکومت کے اتحادی بھی وہی کہہ رہے ہیں۔ ایسے ہی کسی موقع کیلئے کہا گیا تھا۔ ”ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو“۔ دوسرے تو بعد میں حکومت کی ہڈیاں چبائیں گے۔ پہلے اپنے ہی دوست بوٹیاں نوچ کر کھائیں گے‘ رہی بات شوربے کی تو معلوم نہیں وہ کس کس کے حصے میں آئیگا۔ 
عدالت نے کار ساز سانحہ کی ملزمہ کو منشیات کیس میں ضمانت دیدی۔ 
اسے بااثر افراد کی طاقت کہیں یا قانون و انصاف کی کمزوری کہ ہمارے ہاں اس طبقے کے مجرم کبھی میڈیکل بنیاد پر‘ کبھی مدعیوں سے صلح کے نام پر‘ کبھی عدالتوں میں برسوں کیس لٹکائے رہنے کی وجہ سے اور سب سے بڑھ کر دھونس‘ دباﺅ اور دھمکیوں یا پھر پیسے کا لالچ دیکر یہ سفاک مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں اورمظلوموں کا بہایا جانے والا خون رزق خاک ہو جاتا ہے۔ ان کی قبریں انصاف طلب کرتے کرتے مٹ جاتی ہیں۔ انکے لواحقین اس نظام پر چار حرف بھیجتے ہوئے رو دھو کر چپ ہو جاتے ہیں۔ یوں یہ بااثر طاقتور غنڈے اپنی فتح یعنی بری ہونے کی خوشی میں شاندار جشن مناتے ہیں۔ جہاں واقعی ”چھلکائے جام‘ آئیے آپ کی آنکھوں کے نام‘ ہونٹوں کے نام“ والا منظر ہوتا ہے۔ شراب و شباب کے ساتھ لذت کام و دہن میں انکے رشتہ دار ، دوست اور موالی شریک ہوتے ہیں۔ جو رات گزرنے کے بعد بقول شاعر‘
”رات کے جاگے ہوئے کتوں کو بھی نیند آہی گئی“۔صبح کے وقت ادھر ادھر اوند ھے پڑے ہوتے ہیں۔ یہ صرف چند فیصد اشرافیہ کی طاقت کا حال ہے‘ جو عوام کو پیروں تلے چیونٹیوں کی طرح روندتے ہوئے ذرا بھر افسوس نہیں کرتے۔ پولیس‘ وکیل اور عدالتیں انکی مٹھی میں ہوتے ہیں جو کھل جا سم سم کہتے ہیں تو خزانے کا دروازہ کھل جاتا ہے اور حقائق اسکی چکاچوند کی تاب نہیں لا سکتے اور نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ خدا بخشے جالب مرحوم نے کیا خوب کہا تھا۔ 
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے 
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے‘ چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو صبح بےنور کو میں نہیں ما نتا میں نہیں جانتا
جوہر ٹاﺅن کی مرکزی شاہراہ پر شگاف پڑ گیا‘ کار اور 2موٹر سائیکلیں گر گئیں۔
اب کیا ناسا والوں کو تحقیقات کیلئے بلانا پڑیگا کہ زمین کیوں پھٹی کیونکہ نہ زلزلہ آیا‘ نہ کوئی قیامت آئی تو پھر اتنا گہرا گڑھا پڑا تو کیسے پڑا۔ اس کا پتہ لگایا جائے۔ آخر یہ کس غیرمرئی مخلوق کی کارستانی ہے۔ اگر کسی بلا کی کارستانی ہے تو پھر ہوشیار ہونا پڑےگا کیونکہ کیا معلوم آئندہ وہ لاہور کی باقی سڑکوں پر بھی اپنی طاقت کا ایسا ہی مظاہرہ کرے اور جگہ جگہ لاہور کی سڑکوں پر موت کے کنویں بننے لگیں جس میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں گر رہی ہوں۔ خدا کا شکر ہے ابھی تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ مالی نقصان تو پورا ہو جاتا ہے‘ اس سے پہلے ایسا ناگہانی گڑھا گلشن راوی کی سڑک پر بننے کا ریکارڈ تھا جو دو مرتبہ بنا۔ جوہر ٹاﺅن کی مرکزی سڑک پر یہ شگاف دیکھ کر تو پہلے لگا کہیں اسرائیل نے بمباری نہ کردی ہو۔ یا یہ بھارت کی شرارت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ اندر گھس کر مارنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔ اب آتے ہیں برسر مطلب یہ کارنامہ جس کا ہے‘ خواہ سرکاری محکمہ ہو یا ٹھیکیدار یا من پسند ٹھیکے دینے والا جو بھی ذمہ دار ہو‘ اس گڑھے کو اسکی قبر بنا کر انارکلی کی طرح اس میں اسے زندہ دفن کرکے اوپر اسکا نام لکھ کر کمیشن مافیا کے لئے یادگار بنا دیا جائے تاکہ آنے جانے والے یاد رکھ کر عبرت حاصل کریں۔ ایسا تو صرف انگریزی فلموں میں دیکھا تھا کہ انجانی مخلوق کے حملے سے زمین پھٹتی ہے،کوئی بلا نمودار ہوتی ہے‘ ہمارے ہاں تو جناب بڑے سے بڑے گناہ پر بے ایمانی پر ظلم پر بھی زمین نہیں پھٹتی ورنہ کب کی آدھے سے زیادہ آبادی ایسے گڑھوں میں گر کر زندہ درگور ہو چکی ہوتی اور ہم نشان عبرت بن چکے ہوتے۔ ویسے بھی زمین کا پھٹنا قیامت کی نشانی ہے۔ کمیشن خور مافیا یہ کام احسن طریقے سے کر رہا ہے‘ کیا ابھی انکی گوشمالی کا وقت نہیں آیا۔ وہ کیوں بھول رہے ہیں کہ قارون بھی اپنے خزانے سمیت زمین میں دفن کر دیا گیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن