ہندو قوم پرستی کا عنصر اب پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں ہندو جاتے ہیں، وہ وہاں جا کر اپنی قوم پرستی کا پرچار کرتے ہیں۔ ہندو قوم پرستی بر صغیر میں ایک قدیم سیاسی و سماجی تصور ہے جس کی بنیاد ہندوﺅں کی روحانی، مذہبی اور ثقافتی روایات پر مبنی ہے۔ ہندو قوم پرستی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے یہ اصطلاح استعمال نہ کی جائے کیونکہ اس کے معنی ہندو راشٹرواد کے آتے ہیں۔ 18ویں اور 19ویں صدی میں برطانوی ہند کے خلاف جنگ آزادی کے دوران قومی سیاست کا عروج ہوا اور ہندوستان کی سیاست میں برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد آزادی اور تحریک عدم تشدد زور پکڑنے لگی اور زبردستی کی سیاست بھی ہونے لگی اور مذہب کی بنیاد پر تنظیموں کا بننا شروع ہوا۔ بعد کے دور میں ہندوستان کی معاشی اور سماجی تحریکوں پر ہندو قوم پرستی نے گہرا اثر ڈالا ہے۔
ہندو قوم پرستی یا ہندتوا کا نظریہ سب سے پہلے 1923ءمیں ونایک دامودر ساورکر نے دیا تھا جو بعد میں بھارت میں بہت مشہور ہوا۔ ہندوتوا کی رضاکارانہ تنظیم اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بنیادی اکائی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اس تحریک کو ملک میں بھر میں ہوا دی اور سیاسی و سماجی سطح پر مضبوط کیا۔ آر ایس ایس کے علاوہ وشو ہندو پریشد نے بھی ان کے ساتھ مل کر اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ جب سے بھارت میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت بی جے پی نے حکمرانی سنبھالی ہے، ملک میں مذہبی تشدد بھی بڑھ رہا ہے۔ بی جے پی نے اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت کے رجحان کو ہوا دی ہے اور اس کی وجہ سے لبرل یا ترقی پسند ہندو حلقے بھی کھل کر بات کرنے سے ڈرے ہوئے ہیں۔
اب ہندو قوم پرستی کا بڑھتا ہوا عروج جنوبی افریقہ میں امن و امان کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی نے وہاں کی قومی اور سماجی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وشو ہندو پریشد اور ایچ ایس ایس جنوبی افریقہ میں مذہبی پولرائزیشن کو ہوا دے رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے ساحلی شہر ڈربن میں بین المذاہب دعائیہ اجتماع میں بڑھتا ہوا تناﺅ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ فینکس اور ڈربن میں احتجاج مقامی ہندو مسائل کو عالمی تنازعات سے جوڑتا ہے کیونکہ ہندو قوم پرست سوشل میڈیا کو تفرقہ انگیز بیان بازی پھیلانے کے لیے بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں مقیم ہندو رہنماﺅں نے قوم پرست نظریات رکھنے والوں کو اتحاد کرنے کے لیے دباﺅ ڈالا۔ مذہبی تبدیلیوں پر تشویش ہندوﺅں میں ثقافتی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے۔ جنوبی افریقہ میں مقیم ہندو قوم پرستی کے عالمی اثرات فوری توجہ طلب ہیں۔
بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے لیکن بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ میں ہرزہ سرائی کی جارہی ہے اور انسانی حقوق کی رپورٹ نہ جمع کرانے میں دانستہ طور پر تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی رپورٹ نہ جمع کرانے پر بھارت کی سرزنش کی ہے۔ یہ رپورٹ 2001ءسے التواءمیں ہے اور بھارت شرمند گی سے بچنے کے لیے تاخیر ی حربے استعمال کررہا ہے۔
بھارت کو 1997-2022ءتک انسانی حقوق کی سفارشات پر عمل درآمد کرنا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے اسے اس ناکامی پرشدید تنقید کا سامنا ہے۔ لیکن وہ بے شرمی کے باعث ا±گے درخت کی چھاﺅں میں بیٹھاہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں ہندوستانی خواتین کے حقوق کے قوانین کے ناکافی نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے غیر قانونی حراستوں اور اقلیتوں کے ساتھ زیادتیوں کے لیے یو اے پی اے اور اے ایف ایس پی اے قانون کی بھی اپنی رپورٹ میں شدید مذمت کی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت پر آزادی اظہار کو دبانے اور این جی اوز کو نشانہ بنانے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
بین الاقوامی جبر اور بیرون ملک مقیم اپنے لوگوں کو قتل کرنے میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزامات بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ نے جموں و کشمیر جیسے تنازعات والے علاقوں میں سکیورٹی فورسز کو جوابدہی کی کمی کو اجاگر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ابھی بھی ہندوستان میں دلتوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
بھارت کے ہندو قوم پرست عناصر تو تعصب اور انتہا پسندی کے زہر میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن عجب ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا میں بھارت کے حامی بھی اسی زہریلے تعصب کا شکار ہیں۔ اپریل 2000ء میں امریکی وزارتِ خارجہ نے بھارت اور پاکستان سے چار، چار ایڈیٹروں اور اخبار نویسوں کو 11 روزہ دورے پر مدعو کیا، میں بھی اس وفد میں شامل تھا۔ ہمیں جن امریکی دانشوروں سے ملوایا گیا، وہ سب کے سب بھارت کے طرف دار تھے اور بھارتی پروپیگنڈے سے مرعوب تھے۔ ہر کوئی بھارت کی وسیع تجارتی منڈی کے گن گارہا تھا مگر پینٹاگون میں کوئی ایک درجن امریکی جرنیلوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفد کے پاکستانی ارکان نے ان جرنیلوں کی بولتی بند کردی لیکن ہمارے ساتھ سب سے زیادہ بدسلوکی کا مظاہرہ امریکی کانگریس کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین نے کیا۔ یہ شخص امریکہ میں بھارتی لابی کا سربراہ تھا۔ اس نے ہمارے وفد سے محض اس لیے ملنے سے انکار کردیا کہ اس میں چار پاکستانی صحافی بھی شامل ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ بھارت کے مفادات کا نگہبان ہے۔