انسانی حقوق آزادی کا وہ نظریہ ہے جس پر دنیا بھر کے انسان کامل یقین رکھتے ہیں۔ تمام مذاہب کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔ تاہم قرآن مجید نے انسانی حقوق سے متعلق جزئیات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ دنیا بھر کے تمام مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ماننا ہے، انسانی حقوق کو تسلیم اور اس پر عملدرآمد کیے بغیر ترقی کی راہ پر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جا سکتا، نہ ہی کوئی مثالی معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ مزید برآں انسانی حقوق کے اس نظریہ میں وہ تمام اجزاءشامل ہیں جس کے تحت کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان یکساں طور پر سہولیات کے لحاظ سے تمام بنیادی حقوق کے حق دار ہیں۔
مشہور مفکر ڈاکٹر بینی پرشاد کے مطابق، حقوق اور فرائض ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو وہ ”حقوق“ ہیں جبکہ دوسرے کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ”فرض“۔ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ہر انسان انفرادی یا اجتماعی طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے لیکن ”فرض“ کیا ہیں؟ اس کی بات نہیں کرتا۔ انسانی حقوق، آزادی کی بنیادی ضرورت اور شرط ہے۔ جن کو ہر طرح کا قانونی تحفظ حاصل ہے۔ یہ ہماری زندگی کے انفرادی، سیاسی، شہری، روحانی، سماجی، معاشی اور ثقافتی پہلوﺅں کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ انسانی حقوق کے احترام سے ہم اپنی بھرپور صلاحیت پر ترقی کرتے ہیں۔ ملک کے اندر اور باہر امن کی بنیاد رکھتے ہیں۔
حقوق کی دو اقسام ہیں۔ ایک قدرتی، دوسرا قانونی۔ قانونی حقوق کسی فرد کو نافذ کردہ قانونی نظام کی طرف سے عطا ہوتے ہیں۔ جبکہ قدرتی حقوق کسی حکومت، کسی رسم و رواج، عقیدے یا کسی ثقافت کے عطا کردہ نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے یہ عالمگیر اور ناقابل تنسیخ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کسی انسان کی طرف سے تبدیل یا منسوخ نہیں کئے جا سکتے۔ پاکستان میں بنیادی حقوق پاکستان کے آئین 1973ءمیں درج ہیں۔ ان حقوق کو بنیادی حقوق اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مجموعی قومی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں مادی، فکری، اخلاقی اور روحانی پہلوﺅں کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اور آئین ان کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔شہری حقوق سے مراد لوگوں کی جسمانی اور ذہنی سالمیت ہے۔ امتیازی سلوک سے تحفظ اور اظہار رائے بھی اس میں شامل ہے۔ مذہبی رسومات کی ادائیگی اور ہر طرح کی نقل و حرکت کی آزادی کو آئین میں یقینی بنایا گیا ہے۔ حق کے اردو معنی سچائی اور صداقت کے ہیں۔ حق کو باطل کی ضد سمجھا جاتا ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ وہاں ہر کسی کے بنیادی حقوق کو تحفظ حاصل ہو۔ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے حق یا حقوق کے تحفظ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے۔
قرآن مجید میں جن دو حقوق کا خصوصیت سے ذکر ہے۔ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ہیں۔ تاہم اللہ پاک نے قرآن مجید میں سب سے زیادہ زور حقوق العباد پر دیا ہے۔ آئین پاکستان بچوں کے حقوق سے متعلق کہتا ہے کہ ہر نومولود بچے کا اندراج لازمی طور پر ہونا چاہیے جبکہ بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کو ماں باپ کی معاشرتی اور قانونی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔آئین بچوں پر تشدد کی ممانعت کرتا ہے۔ بچوں کے حقوق میں دیگر باتوں کے علاوہ اچھی تعلیم اور تمام اشیائے ضروریہ کی فراہمی بھی شامل ہے۔
حقوق کی ادائیگی کیوں ضروری ہے؟ یہ جاننا ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ حقوق کی ادائیگی سے مراد حقوق اللہ اور حقو ق العباد کی ادائیگی ہے۔ ان میں کمی یا کوتاہی، غفلت اور بے پروائی اللہ اور اس کے پیارے حبیب کی ناراضگی کا باعث بن سکتی ہے جو قہر کی نوید ہے۔ جہاں ہمارے قانونی و معاشرتی حقوق و فرائض ہیں، وہاں اخلاقی حقوق و فرائض کی بھی بات کی گئی ہے۔ جن کا دھیان اور خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ ہماری گفتگو میں کہے گئے الفاظ سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو، کسی تحریر سے کسی کی توہین کا پہلو نکلے، کسی مصنف کی کسی کتاب سے کسی طبقے، فرقے، مذہب، شخص یا اشخاص کو گزند پہنچے، ان کا تشخص مجروح ہو۔ آئین پاکستان اور دین اسلام اس طرح کے تمام معاملات سے ہمیں روکتا ہے۔ معاشرے میں سدھار پیدا کرنے کے لیے اخلاقی حقوق و فرائض کا تعین کر دیا گیا ہے۔ جنہیں سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
اس دنیا میں انسان کے سب سے بڑے محسن اللہ تعالی اور نبی کریم کے بعد اس کے والدین ہیں جو دنیا میں اس کے آنے کا سبب بنے، وہ جب دنیا میں آ گیا تو اس کی راحت کا سامان پیدا کرنے میں اس کے والدین نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ خود مشقت کی چکی میں پستے رہے۔ مگر اپنی اولاد کو شہنشاہوں کا سا سکون مہیا کیا۔ والدین اس کے لیے راتوں کو جاگے۔ اس کی ہر خواہش اور فرمائش کا خیال کیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”انسان والدین کی اطاعت و فرمانبرداری میں ساری زندگی بھی گزار دے، انہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دے، تو تب بھی انسان ان کا حق ادا نہیں کر سکتا“۔
اسی طرح معاشرے کے ہر فرد کے کچھ فرائض اور حقوق ہیں۔ آئین اور دین اسلام نے ان حقوق و فرائض کا تعین کر دیا ہے۔ سرکاری محکموں کی بات کریں تو وہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ نہ کسی کو اپنے فرائض کا خیال، نہ کسی کے حقوق کا۔ پتا نہیں کیوں لوگ اپنے اوپر لاگو ذمہ داری کو فرض نہیں سمجھتے۔ جو جہاں بیٹھا ہے، افسر ہے یا ماتحت، اپنے فرض سے عہدہ برا نہیں ہوتا۔ تھانوں کا تو برا ہی حال ہے۔ کوئی وقوعہ سرزد ہو جائے، جرم قابل دست اندازی پولیس بنتا ہو، تو تھانے والے آسانی سے ایف آئی آر درج نہیں کرتے جبکہ یہ ذمہ داری ایس ایچ او اور تھانہ محرر کی ہے کہ متاثرہ کسی بھی شخص کی آمد پر جرم کے مطابق مقدمہ کا اندراج کرے لیکن وہ اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتا ہے جس سے مدعی کے قانونی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ یہ رسم سی چل پڑی ہے اور اب پولیس ہی نہیں دوسرے محکموں میں بھی فرض سے پہلوتہی کی وبا عام ہے۔ جس دن اپنے حقوق و فرائض کو سمجھ لیا، سمجھ لیں بہت بڑی جیت اپنے نام کر لی۔