اداروں کے اندر افسوسناک لڑائی


پاکستان میں آجکل جس چیز کی فراوانی ہے وہ یہ ہے کہ “ اٹ پٹیاں سیاستدان تے مفتی مل جاندا اے”۔ گو کہ عمران خان نے سیاست کو جو نئی جِہتیں بخشیں اس میں زبان پر اختیار اب کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن شومئی قسمت دوسری طرف معاشرے میں جسے دیکھو، صاحب علم ہے کہ نہیں، جب چاہے وہ کسی بھی مسئلہ پر فتویٰ جاری کرتا دکھائی دیتا ہے اور خاص کر مذہب کے حوالے سے بغیر تحقیق اور بنا ثبوتوں کے جس اتھارٹی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں آجکل فتویٰ بازی کی روایت چل پڑی ہے اور جسکے نتیجے میں متشدد روئیے اپنی انتہاو¿ں کو چھونے لگے ہیں نہ جانے وہ ہمیں کہاں لے جائینگے۔ لہٰذا آج کے کالم کے عنوان سے حساسیت کا جو پہلو بظاہر نظر آ رہا ہے اسکی نزاکت اور تقدس کا خیال رکھتے ہوئے اسکا ایک ایک لفظ انشاءاللہ انتہائی احتیاط کے ساتھ رقم کیا جائے گا کیونکہ راقم کا یہ پختہ عقیدہ اور کامل ایمان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی الیہہ وسلم خدا کے آخری نبی ہیں جنکے بعد کسی پر نبوت کا تصور بھی گناہِ کبیرہ ہے۔ اور جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ اسلام کے بتائے ہوئے اصول کے تحت مرتد ہے جسے سزا دینے کا اصل اختیار ریاست کے مجوزہ قوانین کے مطابق ریاست یا ریاست کے تضویض کردہ ریاستی ادارے کے پاس ہی ہے۔
اہل علم اس پر مزید روشنی ڈال سکتے ہیں کہ کس طرح مختلف حوالوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتک ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور کیا یہ سب کے سب نبوت کے درجہ پر فائز تھے یا ان میں کتنوں پر نبوت نازل ہوئی اور پھر ان میں سے کتنے رسول ٹھہرے۔ کم علمی کی وجہ سے گستاخی کے کسی بھی پہلو پر پیشگی معذرت کے ساتھ لفظ رسول کے لغوی معنی دیکھے جائیں تو رسول کا مطلب “اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا وہ نبی یا پیغمبر ہے جن پر نئی شریعیت یا آسمانی کتاب نازل ہوئی ہو۔ اور جن پر نئی شریعت نہ آئی ہو اسے نبی کہتے ہیں۔ البتہ نبی کیلئے لازم ہے کہ اس پر وحی نازل ہوئی ہو۔ اللہ کی شان دیکھیں جن مخصوص انبیاءپر کتابیں بھی نازل ہوئیں ان میں بھی ہمارے نبی اکرم کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ واحد نبی ہیں جنکے لیئے اللہ کی طرف سے کلمہ “لآ اِلہَ اِلّا اللّہ محَمَّد رَسول اللہِ” میں لفظ “ رسول اللہ ” کا خصوصی طور پر ذکر کر کے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ وہ اللہ کے پیغمبر ، نبی اور رسول ہیں۔ یہ سوال کہ کیا ہر پیغمبر کا شمار نبی کے زمرے میں ہو گا اسکا جواب فقہ کے عالم ہی دے سکتے ہیں لیکن اگر لفظ پیغمبر کی مختلف مکاتب فکر و فقہ کی دستیاب تعریفوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ عربی لغت میں پیغمبر ان ہستیوں کو کہتے ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زمین پر خدا کے پیغام کو پھیلاتے ہیں اور مثالی انسانی طرز عمل کے نمونے کے طور پر کام کرتے ہیں اور وہ کوئی غلطی نہیں کرتے، یہ ایک روحانی فیض ہے جو مخصوص انسانوں کو عطا ہوتا ہے۔ اس تعریف کے الفاظ پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ خدا کے پیغام کو پھیلانے کے ساتھ ایک شرط کا بھی ذکر ہے کہ اس انسان کا اپنا طرز عمل مثالی ہو اور یہ صرف الفاظی تبلیغ تک ہی محدود نہ ہو۔ لیکن ہمارے پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ ہے کہ یہاں جو بھی صاحب اختیار ہوتا ہے وہ کردار کا مجاہد بننے سے زیادہ گفتار کا غازی بن کر دعویٰ پیغمبری کرتا نظر آتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اس روایت کے سچ ہونے کا دائرہ صرف چند افراد تک محدود نہیں۔ پولیٹیکل سائنس میں جن دو سب سے بڑے ریاستی اداروں کو ریاست کے اہم ترین ستون سمجھا جاتا ہے ان میں ایک پارلیمنٹ ہے جو کہ ریاستی قانون کا ماخذ ادارہ سمجھا جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں جسکے بطن سے ریاستی قانون تخلیق پاتا ہے اور دوسرا ریاستی ادارہ سپریم کورٹ ہے جو عوام کو انصاف کے ساتھ ساتھ مروجہ ریاستی قانون کی جب اسکی ضرورت پڑتی ہے تو اسکی تشریح بھی کرتا ہے۔ میرے وطن میری ارض پاک کی بدنصیبی کی انتہائ دیکھیں آج یہ دونوں ریاستی ادارے ایک دوسرے کے معاون ہونے کی بجائے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے نظر آ رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر وقت کا جبر دیکھیں کہ پارلیمان میں تو مختلف پارٹیوں کے منتخب ارکان میں جمہوریت کے حسن کے لیبل کے تحت رسہ کشی کو تسلیم کیا جا بھی سکتا ہے اسکے برعکس آج ریاست کے دوسرے سپریم ادارے “سپریم کورٹ “ کے ججز کے درمیان کھلے عام جسطرح بیان بازی اور خطوط کے تبادلے ہو رہے ہیں اسے آپ کیا نام دے سکتے ہیں۔ میرے ملک کا قانون تو یہ کہتا ہے کہ وہ واحد ریاستی ادارہ جو دعوی پیغمبری کر سکتا ہے وہ اس ملک کی سپریم کورٹ ہے لیکن ملک کی تاریخ میں اسی سپریم کورٹ کے مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کی سربراہی میں اسی عدالت کا فیصلہ، جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں بھٹو قتل کا عدالتی فیصلہ، جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں جنرل مشرف کو تین سال تک آئین میں ترمیم دینے کے اختیار کا فیصلہ، جسٹس بندیال کی سربراہی میں 63 اے کو ری رائٹ کرنے کے فیصلوں سمیت وہ ایک طویل فہرست ہے جسکا یہاں تفصیلاً ذکر نہیں ہو سکتا، ان سب کی موجودگی ایک عام شہری کو کیا سوچنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ انکے ان کارناموں کو کس نام سے پکارتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے اور یہی ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر اس ادارے میں بیٹھے ججز کو خصوصی توجہ دینی چاہیے ورنہ اداروں پر عدم اعتماد کے جس زہر نے لوگوں کے دل و دماغ پر اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے اسکا انجام کیا ہو گا یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن