وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ہدایت پر وفاقی حکومت نے عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے ایک مرتبہ پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر دی۔ پٹرول کی قیمت میں 2.07 روپے فی لٹر اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 3.40 روپے فی لٹر کمی کی گئی .لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 1.03 روپے فی لٹر جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 3.57 روپے فی لٹر کمی کی گئی ہے۔ یکم جون سے یکم اکتوبر تک پٹرول کی قیمت میں پانچ بار مجموعی طور پر 50 روپے کے قریب فی لٹر کمی ہو چکی ہے۔ اب پٹرول کی نئی قیمت 249.10 روپے فی لٹر سے کم ہو کر 247.03 روپے فی لٹر ہوگئی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت کے تحت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جا رہا ہے۔
ادھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ا±دھر ایل پی جی کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)کے نوٹیفکیشن کے مطابق گھریلو سلنڈر 86 روپے 28 پیسے مہنگا کر دیا گیا ہے۔ایل پی جی کی نئی قیمت 251 روپے 30 پیسے فی کلو مقرر کی گئی ہے جبکہ گھریلو سلنڈر کی نئی قیمت 2965 روپے ہوگی۔
کچھ عرصہ قبل تک بجلی اور پیٹرولیم نرخوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا جس کے باعث مہنگائی بے حد و بے کنار ہوتی چلی گئی۔غریب اورعام آدمی ہی پر کیا موقوف، مڈل کلاس کے لیے بھی سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا۔ تجزیئے ہونے لگے کہ پاکستان میں مڈل کلاس ختم ہو رہی ہے۔ دو کلاسیں ہی بچیں گی، غریب اور امیر۔ان کے درمیان سے لوئر اور مڈل کلاس بے وجود ہو رہی ہے۔
رواں سال جون سے گزشتہ روز یکم اکتوبر تک پیٹرولیم کی قیمتوں میں فی لیٹر معقول حد تک کمی نوٹ کی گئی ہے۔ گزشتہ روز پٹرول کی قیمت میں 2.07 روپے فی لیٹر کمی کی گئی جبکہ ڈیزل تقریبا ایک روپے فی لیٹر سستا کیا گیا۔ عالمی سطح پر ستمبر کے مہینے میں آئل فی بیرل 78 روپے سے گر کر 73 روپے پر آگیا تھا۔ پاکستان میں اس کے مقابلے میں معمولی سا ریلیف دیا گیا ہے۔مہنگائی کے طوفانوں میں گھرے ہوئے عوام اسی پر اکتفا کررہے ہیں کہ چلیں نہ ہونے سے اتنا ہی بہتر ہے۔ حکومت قیمتیں برقرار رکھتی یا اضافہ بھی کر سکتی تھی۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں گو معمولی کمی ہوئی ہے لیکن چند ماہ میں قیمتیں خاصی کم ہوئی ہیں لیکن اس کے مطابق مہنگائی میں کمی ہوئی ہے نہ ہی کرائے اس تناسب سے کم ہوئے۔دیکھنے میں آتا ہے کہ ادھر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ا±دھر ناجائز منافع خور قیمتوں میں اضافے کا بہانہ بنا کر ہر چیز کی قیمت میں من مانا اضافہ کر لیتے ہیں۔پرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں مگر ان کا عملی وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔
پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے تناسب سے مہنگائی میں کمی نہ ہونے کی وجہ ایک تو انتظامیہ کی عدم دلچسپی ہے ،دوسرے بجلی کی قیمتوں میں لگاتار اور ناقابل برداشت اضافہ ہے۔لوڈ شیڈنگ کے ساتھ اوور بلنگ نے عوام کی قوتِ خرید کو پستی میں دھکیل دیا ہے۔حکومت نے اوور بلنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان ضرور کیا مگر کسی کے خلاف کارروائی ہوتی نظر نہیں آئی۔ جن کو اوور بلنگ پر مورد الزام ٹھہرایا گیا، ان کی اس میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ ایسے فیصلے ادارہ جاتی ہوتے ہیں اس کے مطابق ہی ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
ہر چیز کی قیمت کے تعین میں توانائی کے نرخوں میں رد و بدل اہمیت کا حامل ہے۔توانائی وافر اور سستی ہوگی تو مہنگائی کنٹرول میں رہے گی۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کا باعث ہیں۔ یہ معاہدے ”عوام دوست“ حکمران اشرافیہ کی طرف سے 2054 ءتک بھی کیے گئے ہیں۔اب تو سب کو معلوم ہو گیا کہ ایسی آئی پی پیز بھی ہیں جنہوں نے بجلی پیدا کیے بغیر اربوں روپے کے بل وصول کر لیے۔معاہدوں پر نظر ثانی جیسے بھی ہو ناگزیر ہو چکی ہے۔
ایران پاکستان کو سستی گیس اور پٹرول فراہم کرنے کو تیار ہے مگر امریکی پابندیاں آڑے آ جاتی ہیں۔ ایران سے چین ، بھارت اور کئی یورپی ممالک سستا تیل خرید رہے ہیں جبکہ پاکستان کو پائپ لائن معاہدے کی پابندی نہ کرنے پر امریکہ کی وجہ سے اربوں ڈالر کے ہر جانے کا سامنا ہے۔ امریکہ سرکار ایک تو پاکستان کو ممکنہ پڑنے والا یہ جرمانہ ادا کرے دوسرے اسی نرخ پر جس پر ایران پاکستان کو پٹرول فراہم کرنے پر تیار ہے امریکہ اسے فراہم کرے۔
مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری عوام کو بہر صورت ریلیف فراہم کرنے کی ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے سات ارب ڈالر کے بیل آو¿ٹ پیکج کی منظوری دی گئی ہے۔اس کی ایک ایک پینی کے خرچ اور استعمال کی کڑی سیکروٹنی کی ضرورت ہے۔ایسے قرضوں کا غیر ضروری استعمال ہوتا رہاہے۔کرپشن کے سکینڈل بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ان سات ارب ڈالر کا ایک حصہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔خصوصی طور پہ بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔اشرافیہ کے بے جا اخراجات پر بھی قدغن کی ضرورت ہے۔اگر مافیا مہنگائی میں کمی نہیں آنے دے رہا تو یہ گورننس کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ جب تک ان پر کڑا ہاتھ نہیں ڈالا جائیگا‘ عوام کو ریلیف دینے کی حکومتی کاوشیں بے سود رہیں گی۔پٹرولیم نرخوں کو عالمی منڈی کے مطابق لانے کی بھی ضرورت ہے۔