لبنان سے ایران کی  رخصتی

کسی ملک پر دوسرے ملک کا ، تاریخ کا سب سے انوکھا حملہ ہوا ہے۔ یعنی اسرائیل نے لبنان کی حکومت سے باقاعدہ اجازت لے کر اس پر حملہ کیا ہے۔ اسرائیل نے جب حملے کا ارادہ کیا اور لبنانی حکومت کو اس سے آگاہ کیا تو لبنانی حکومت نے کہا، ابھی نہیں، چند گھنٹے دو تاکہ ہم اپنی فوج اس علاقے سے واپس بلا لیں جہاں پر نظر کرم ڈالنے کا آپ نے ارادہ فرمایا ہے۔ چنانچہ اس مہلت کے اندر اندر لبنانی فوج دریائے سطانی سے بھی پیچھے چلی گئی اور کہیں سے 5 کلومیٹر، کہیں سے دس کلومیٹر کا علاقہ خالی کر دیا۔ یہ حملے کا پہلا مرحلہ ہے، اس کے بعد اسرائیل مزید آگے جائے گا اور اسرائیلی یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ اس بار وہ آپریشن کر کے واپس نہیں جائیں گے بلکہ مقبوضہ گولان کی طرح اس علاقے کو بھی اسرائیل میں ضم کر لیں گے۔ لبنان کا نیا نقشہ یعنی کہ جلد جاری ہونے والا ہے۔ 
حزب اللہ کی زمینی فورس زیادہ تر لبنان سے نکل کر شام چلی گئی ہے البتہ اس کی راکٹ باری کرنے والی مشینری کے بہت سے یونٹ بدستور لبنان میں موجود اور فعال ہیں۔ شام میں جانے والے حزبی گوریلے مقامی آبادی کے مکانات پر قبضہ کر رہے ہیں، انہیں قتل اور زخمی کر رہے ہیں۔ شام میں اس وقت مقامی آبادی بہت کم رہ گئی ہے۔ تین چوتھائی آبادی یا تو شمال کے ’’آزاد‘‘ علاقے میں مقیم ہے یا پھر یورپی اور دوسرے ملکوں کو ہجرت کر گئی ہے۔ بظاہر اب مزید مقامی آبادی کو مہاجرت کا سفر کرنا ہو گا۔ 
ایک بہت بڑی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ اقوام متحدہ کے ساتھ (اصل میں تو امریکہ کے ساتھ) لبنانی حکومت کا ایک معاہدہ ہو گیا ہے جس کے تحت لبنانی حکومت باقی ماندہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرے گی۔ یعنی اس کا تنظیمی وجود رہے گا، فوجی وجود ختم کر دیا جائے گا۔ یہ کام لبنانی حکومت کے بس کا نہیں ہے لیکن کیا یہ کیا جائے گا۔ مطلب آپ سمجھتے ہیں، لبنانی حکومت کے پردے میں ہر کام امریکہ کرے گا۔ حتمی نتیجہ یہ کہ لبنان پر ایرانی کنٹرول ختم۔ 
اسرائیل نے ایران میں ’’رجیم چینج‘‘ کی پیشگی خبر سنائی ہے۔ مطلب یہ کہ امریکہ اب اسرائیل کے پردے میں ایران کے ساتھ کوئی بڑی واردات ڈالنے والا ہے۔ حوثیوں پر مسلسل حملے ان کی کمزوری اور نتیجتاً شمالی یمن میں عوامی سطح پر بے چینی بلکہ انارکی کی طرف لے جائیں گے جس کا فائدہ سعودی اتحاد اٹھا سکتا ہے جس نے پہلے ہی الحدیدہ کی بندرگاہ کا تین طرف سے محاصرہ کر رکھا ہے۔ شمالی یمن کا جنوبی حصہ ، تعز کے شہر تک ، پہلے ہی سعودی اتحاد کے قبضے میں ہے۔ 
ہمارے ہاں کے دانشور تیسری جنگ عظیم کی خبر دے رہے ہیں۔ کسی بھی جنگ یا عالمی جنگ کیلئے ایک سے زیادہ فریقوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ یہاں دوسرا فریق کہاں ہے، یہ دانشور حضرات ذرا بتا دیں تو مہربانی ہو گی۔ ایران نے ، بزبان خود اعلان کر دیا ہے کہ وہ جنگ سے ڈرتا نہیں ہے لیکن جنگ کرے گا نہیں کیونکہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں۔ پرویز مشرف یاد آ گئے، فرمایا کرتے تھے ، کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں، (بس امریکہ کا فون آنے پر لیٹ جایا کرتا ہوں)۔ 
ایران جنگ نہیں کرنا چاہتا، وہ جنگ کر بھی نہیں سکتا۔ جس ملک کے پاس فضائی دفاع کا نظام ہی نہ ہو اور جو ملک دشمن ملک پر ہزاروں ڈرون اور میزائل داغے اور وہ سب کے سب آتش بازی کے پٹاخے ثابت ہوں ، وہ جنگ کر بھی نہیں سکتا۔ چنانچہ فی الحال تیسری عالمی جنگ کے امکان کا لطیفہ سنانے کا وقت نہیں ہے۔ اسرائیل غزہ کے بعد لبنانیوں کے قتل عام بلکہ نسل کشی پر اتر آیا ہے۔ اس کا پلہ، جہاں بھی گرے گا، لبنانی مرے گا چاہے وہ شیعہ ہو عیسائی ہو یا سنّی ہو۔ یہودی نہیں مرے گا اور اسرائیل کیلئے آئیڈیل صورت حال یہ بھی ہے کہ امریکہ برطانیہ روس چین ترکی عرب ممالک سمیت سب متعلقہ طاقتیں اس کی لپیٹ پر ہیں۔ کچھ کھلی حمایت کے اعلانات کے ساتھ، باقی مذمت کے پردہ نفاق کے پیچھے سے۔ ہمارے ہاں البتہ ایسے سنہرے خواب دکھانے والے موجود ہیں کہ روس اور چین نے اپنی فوج روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
تازہ اطلاع یہ ہے کہ ایران نے امریکہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنے گوریلے لبنان میں بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ گویا ایک اور فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ 
______ 
اگلے ہفتے شنگھائی کانفرنس اسلام آباد میں ہو رہی ہے۔ چین ملائیشیا سمیت کئی بااثر ایشیائی ممالک کے سربراہ پاکستان آئیں گے۔ عالمی اداروں نے سند جاری کی ہے کہ ملکی معیشت مستحکم ہو رہی ہے، گروتھ ریٹ بھی بڑھ رہا ہے، برآمدات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم بھی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ افراطِ زر 30 فیصد سے کم ہو کر سنگل ڈیجٹ پر آ گیا ہے یعنی دس فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے۔ (اگرچہ مہنگائی کم نہیں ہوئی، طوفان کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ طوفان کی رفتار میں کمی کو وفاقی وزیر مہنگائی میں کمی سے تعبیر کر رہے ہیں اور جواب میں عوام کا ’’شکریہ‘‘ وصول کر رہے ہیں۔ شکریہ کے الفاظ کچھ ایسے ہیں کہ نقل نہیں کئے جا سکتے۔ بہرحال ملک استحکام میں پلٹ آیا ہے اور مہنگائی کم ہونے کی امید بھی پیدا ہو گئی ہے۔ 
چنانچہ ان ’’ناقابل برداشت‘‘ حالات میں ڈی چوک پر پھر سے دھرنا میلہ سجانا ضروری ہو گیا تھا۔ اڈیالہ کے ’’فائیو سٹار ہوٹل‘‘ والی رہائش گاہ سے جناب اڈیالوی نے 4 تاریخ کو دھرنے کی کال دیدی ہے۔
لیکن__ لیکن__ 2014ء  کا وہی سماں پیدا کرنے، رقص میں سارا جنگل ہونے اور جنگل میں پھر منگل ہونے کیلئے آب حیات کا چشمہء فیض ہونا ضروری ہے۔ اور وہ چشمہ تو خشک ہو چکا۔ خشک بھی ایسا کہ خاردار جھاڑیاں اور زہریلی گھاس اْگ آئی، وہاں سے باد بہاری نہیں، صرصر کی بادسموم چلتی ہے۔ 
ایڈیالوی صاحب کو ماحولیاتی تبدیلی کا شاید کسی نے بتایا ہی نہیں۔
______ 
ایک صاحب تھے، پی ٹی آئی کے زبردست گوریلے…امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے، نوٹس جاری ہوا لیکن اپنی حکومت تھی معاملہ دبا دیا گیا۔ 
اڈیالوی صاحب کو پتہ چلا کہ موصوف نے امتحانات میں نقل کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے تو ……کی طرح خوش ہوئے چنانچہ فوری حکم صادر فرمایا کہ موصوف کو وزیر تعلیم لگا دیا جائے۔ گنڈاپور نے تعمیل کی اور انہیں وزیر تعلیم بنا دیا۔ گزشتہ روز سے ان کی وڈیو وائرل ہو رہی ہے۔ وہ کے پی اسمبلی میں تقریر فرما رہے ہیں جس میں مریم نواز کیخلاف خاصی عریاں گفتگو کی گئی ہے۔ معاف کیجئے گا، خاصی عریاں نہیں، خاصی سے زیادہ عریاں، فحش ، ننگی اور ازحد غلیظ۔ پی ٹی آئی کے ارکان کیلئے فردوس گوش البتہ ! سرمست حاضرین اسمبلی یہ خطاب سن کر بدمست ہو گئے۔ 
اب تو مان لیجئے حضور کہ جناب اڈیالوی ہر بندے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں۔ اب تعلیمی لحاظ سے کے پی کا مستقبل اور بھی ’’روشن‘‘ ہو گا، کیا خیال ہے۔؟

ای پیپر دی نیشن