اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) بلاول بھٹو زرداری نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ وہ کسی شخصیت کے لیے آئینی ترامیم کے لیے جدوجہد نہیں کر رہے، بلکہ اس کا مقصد عوام کو فوری انصاف پہنچانا اور اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ کوئٹہ میں بلوچستان ہائی کورٹ بار سے خطاب میں پی پی پی چیئرمین نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بلوچستان کی وکلا برادری کی جدوجہد اور قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے وکلا کے ساتھ میرا خاص طور پر گہرا لگاو ٔہے۔ انہوں نے وکلاء برادری پر دہشتگردانہ حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع کو بہت بڑا المیہ قرار دیا۔ میرے خاندان اور میری جماعت کا سفر عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا کٹھ پتلی خان سے شروع نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ آگ اور دریا پار کرنے جیسی جدوجہد ہم گزشتہ تین نسلوں سے کرتے آرہے ہیں۔ میثاقِ جمہوریت کے ذریعے ہم نے 18 ویں آئینی ترمیم کی شکل میں 1973 کا آئین بحال کیا۔ 90 کی دہائی میں، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی حکومت میں وہی عدالتیں دیکھیں۔ اس دور کی تصاویر دیکھیں، جب سابق وزیراعظم (شہید محترمہ بینظیر بھٹو) کو ایک ہاتھ میں مجھے اور دوسرے ہاتھ سے میری بہن کو پکڑے شدید گرمی میں جیل کے باہر انتظار کروایا جاتا تھا تاکہ ہم اپنے والد سے مل سکیں۔ میرے والد کو ساڑھے 12 سال بغیر سزا کے جیل میں رکھا گیا اور تشدد کیا گیا، پہلے شریف کی مرضی پھر جنرل پرویز مشرف کی مرضی کے تحت۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج پی ٹی آئی یہ مضحکہ خیز دعوے کر رہی ہے کہ وہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی جدوجہد کو مجھ سے زیادہ معلوم ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، اْس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی، اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل پاشا کے درمیان، اندرون خانہ، مْک مکا ہوا تھا۔ انہیں خوف تھا کہ اگر آئین اپنی اصل صورت میں بحال ہوا تو ان کا جمہوریت پر کنٹرول نہیں رہے گا۔ میں مانتا ہوں کہ آج بہت برے حالات ہیں، لیکن حالات اس وقت بھی بہت برے تھے جب ایک ایسا فرعون بیٹھا تھا جس کے خلاف آپ کچھ بول ہی نہیں سکتے تھے۔ آپ مجھے بتائیں کہ توہین عدالت کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کسی جج کے خلاف بولیں تو آپ کو زندگی بھر کیلئے سزا ملے گی۔ کیا یہ اظہار خیال کی آزادی ہے؟ کہ آپ کوئی فیصلہ دیں، آپ کسی وزیراعظم کو نکالیں، آپ 18ویں ترمیم کو 19ویں ترمیم میں تبدیل کریں اور ہم چوں تک نہ کرسکیں۔ اسلام آباد میں جو کچھ ہورہا ہے، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن جب آپ نے پوچھا کہ 18ویں ترمیم کے وقت میں نے یہ کیوں نہیں کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اْس وقت بھی کرنا چاہ رہا تھا لیکن آپ جیسے معزز وکلا نعرے لگارہے تھے کہ ’زندہ ہے وکلا، چیف تیرے جاں نثار شمار بے شمار، آزادی ریاست ہوگی ماں کی طرح۔ انہوں نے مزید کہا پھر کیا ہوا، ریاست ماں جیسی بننے کے بجائے بن گئی باپ کی طرح، اور اس میں بہت بڑا ہاتھ چیف جسٹس افتخار چوہدری کا ہے۔ یہ اداراہ پارلیمان پر مسلسل حملہ آور رہا ہے، آپ نے آزادی کے نام پر اس کو مزید طاقت دلوائی ہے۔ انہوں نے کہا 63 (اے) کا آئین ہم نے لکھا ہے تو سب سے زیادہ مجھے پتا ہے کہ 63 (اے) کا مطلب کیا ہے۔ عدالت نے جنرل مشرف کو بلامشروط آئین میں ترامیم کرنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن منتخب نمائندوں کو یہ اختیار نہیں دے رہی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ موجودہ چیف جسٹس کیلئے جدوجہد نہیں کر رہے۔ میرا نہیں آپ کا ایجنڈا کسی خاص شخصیت کیلئے تو ہوسکتا ہے، لیکن میرا نہیں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں کہ عمر عطا بندیال اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میں سے کوئی بھی آکر آئینی عدالتوں میں بیٹھے۔ مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا اس بات پر اعتراض کرے گا کہ ہمیں ایک ایسی آئینی عدالت ملنی چاہئے جس میں چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی ملے۔ عدالتی اصلاحات کے منصوبے کو خراب کیا گیا۔ اگر میں 25 اکتوبر کے بعد تک انتظار کر ہی لوں تو کیا 63 اے جیسا فیصلہ نہیںآئے گا؟ کیا ایسا نہیں کہا جائے گا کہ آپ تو ترمیم نہیں کرسکتے، یہ صرف ہمارے پاس اس کا اختیار ہے۔ آپ کیا یقین دلائیں گے کہ وہ ایک بار پھر یہ دھمکی نہیں دیں گے کہ پوری کی پوری 18 ویں ترمیم اڑا کر رکھ دیں گے۔ اگر کوئی پاکستان میں عدالتی نظام اسی طرح رکھنا چاہے گا تو ہم نہیں مانیں گے۔ ہمارا مطالبہ صرف آئینی عدالت کے قیام کا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عدالتی اصلاحات اور ججز کے تقرری کے طریقہ کار کو درست کرنے کا بھی ہے۔ میرٹ کے فیصلوں کا ذرا حال بھی دیکھ لیں۔ سندھ ہائی کورٹ کی 13 اور لاہور ہائی کورٹ میں تقریباًً 24 آسامیاں خالی ہیں، لیکن معزز ججز صاحبان آپس میں بات نہیں کرتے۔ اتنے سارے کیسز ہیں اور ہر چند مہینے بعد کوئی سیاسی مسئلہ اٹھ جاتا ہے ۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ ججز کی مدت ملازمت کا ایک مخصوص وقت ہو، جبکہ کچھ اور لوگ چاہتے ہیں کہ اس کے لیے عمر کے حد کو مقرر کیا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم حکومت کے ساتھ آئینی عدالت کے حوالے سے جو سمجھوتہ کرچکے ہیں وہ تو ناکافی ہے۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالت ہونی چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر آئینی عدالت بنانی ہوگی اور ہمیں مقدس گائے کے تصور کو جس جگہ بھی ہوں، ختم کرنا ہوگا۔ فوجی عدالتوں کا تصور بار بار اس لیے آتا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزا نہیں دے سکتا اور جب ججز پر اس پر سوال ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وکلاء اور پراسیکیوشن برے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت بنانے کا مقصد کسی جج کو فکس کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی ضرورت ہے اور میں اس کے لیے کوشش کرتا رہوں گا۔ پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ انہیں بھی بہت دیر سے پتا چلا کہ حکومت آئینی ترمیم کرنے میں بہت جلدی میں ہے۔ آئینی ترمیم سے متعلق مسودے میں حکومت یہ چاہ رہی تھی کہ وہ کابینہ سے اپنا ہی مسودہ منظور کرکے اس پر ہی بحث کرے اور اسی کو پارلیمنٹ میں لے کر آئے۔ لیکن مولانا فضل الرحمٰن نہ صرف مسودے کو پڑھنا چاہتے تھے بلکہ وہ مجوزہ آئینی ترمیم سے متعلق تمام جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جب کمیٹی قائم ہوئی تو عمران خان نے ایسا بیان دیا جس سے ایسا لگا کہ ان کا اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ہماری معیشت، سیاست اور عدالتی نظام میں درستگی نہ آئے۔ ججز کے تقرری کے موجودہ طریقہ کار کے تحت کسی قسم کا بھی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں یہ واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ صرف اس لئے قانون نہیں بنانا چاہتے کہ انہیں کسی کی شخصیت پسند ہے ۔ ہم کسی شخصیت کے لیے قانون نہیں بنائیں گے، آپ مجھ سے توقع نہیں کرسکتے کہ میں کسی کا راستہ بنانے یا روکنے کے لیے قانون بناؤں اور یہ میری بدنیتی ہوگی۔ اسلام آباد میں بڑی بڑی عمارتوں کو کرپشن کی وجہ سے اجازت دی جاتی ہے، اور کرپشن کی وجہ سے کراچی میں عمارت گرائی جاتی ہے۔ جو ہر کسی کو چور ڈاکو اور سسلین مافیا کہتے ہوئے تھکتے نہیں ہیں، ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ عدالت کا اپنے دائرہ کار ہے اور انہیں اسے خود سرانجام دینا چاہیے لیکن مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھی یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی جج کے احتساب کے لیے تجویز بھیجیں۔ میری یہ تجویز ہے کہ وفاق اور صوبے میں آئینی عدالت اگر بنا رہے ہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل میں یہ سب مل کر بیٹھیں مگر جب آئینی عدالت کا کوئی سوال ہو تو اس کا چیئرمین آئینی عدالت کا چیف جسٹس ہو اور جب ہائی کورٹس یا سپریم کورٹ کا سوال ہو تو اس کا چیئرمین سپریم کورٹ پاکستان کا کوئی جج ہو۔