عدالتی اصلاحات ناگزیر‘ شریعت کورٹ بن سکتی ہے تو آئینی عدالت کیوں نہیں: نثار کھوڑو

Oct 02, 2024

کراچی (سٹاف رپورٹر) ہیومن رائٹس کے نمائندوں، وکلا اور سول سائٹی نے جوڈیشل ایکٹوزم کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور ایگزیکٹو کے درمیان اختیارات کے توازن اور عدالتی ریفارمز سمیت آئینی مسائل کے حل کے لئے ملک میں آئینی عدالت کے قیام کو ناگزیر اور وقت کی اہم ضرورت قرار دے دیا ہے۔ منگل کو سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں ہیومن رائٹس سیل کے تحت ہیومن رائٹس کے نمائندوں، وکلا اور سول سوسائٹی کا آئینی ترمیم کے متعلق پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کی صدارت میں ڈائیلاگ سیشن کا انعقاد ہوا۔ جس میں پیپلز پارٹی ہیومن رائٹس سیل کی جنرل سیکرٹری ملائکہ رضا، ایم این اے نفیسہ شا، قانون دان سینیٹر ضمیر گھمرو، صوبائی وزیر سعید غنی، انیس ہارون، ایڈووکیٹ قاضی بشیر سمیت دیگر وکلا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ ڈائیلاگ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا کہ وفاقی شریعت کورٹ بن سکتی ہے تو پھر آئینی عدالت کیوں نہیں بن سکتی۔ جب آئین میں ترمیم ہوسکتی ہے تو پھر عدالتی ریفارمز کیوں نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں عدالتی ریفارمز اور آئینی عدالت کا قیام ناگزیر اور وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ ہم جوڈیشل ایکٹوزم کے خلاف ہیں چاہتے ہیں کے پارلیامنٹ اور آئین کی بالادستی قائم ہو اور ملک میں جوڈیشل ایکٹوزم نہیں ہونا چاہئے۔ نثار کھوڑو نے کہا کے پارلیمنٹ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور ایگزیکٹو کے درمیان اختیارات کا توازن برقرار ہونا چاہئے۔ آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ پر کیسز کا دبا ؤکم ہوگا اور آئینی عدالت صرف آئینی معاملات سن سکے گی۔ آئینی عدالت کے قیام کے متعلق 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ میں جلد پیش ہوکر منظور ہوجائے گی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایم این اے نفیسہ شاہ نے کہا کے پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں آئینی ترمیم کے متعلق سیاسی جماعتوں سے مشاورت جاری ہے۔ ماضی میں عدالت نے نظریہ ضرورت کو جنم دیا اور آمروِں نے آئین کا حلیہ بگاڑا جس کو تحفظ بھی عدلیہ نے دیا اور ماضی میں عدلیہ نے ہی منتخب وزراء اعظم کو بھی عہدوں سے ہٹایا۔ نفیسہ شاہ نے کہا کے پارلیمنٹ، جوڈیشری اور ایگزیکٹو میں اختیارات کا توازن ہونا چاہئے۔صدر زرداری نے 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین کو مکمل بحال کرایا۔ سینیٹر ضمیر گھمرو نے کہا کے پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرسکتی ہے۔ قانون اور آئین بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور تشریح کرنا عدالت کا کام ہے تاہم بنیادی حقوق کے خلاف اگر قانون سازی ہوگی تو عدالت اس قانون کو رد کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کے آئینی عدالت میں تمام صوبوں سے ججز کی برابر کی نمائندگی ہو جو اب سپریم کورٹ میں نہیں ہے، اس لئے عدالتی اصلاحات سے عدالتی معاملات میں بہتری آئے گی۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے کہا کے17ویں ترمیم جب سپریم کورٹ میں چیلنج ہوئی تو سپریم کورٹ نے آئین اور قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار قرار دیا تھا اور 18ویں ترمیم پر سو فیصد اتفاق تھا مگر عدالت نے کہا کہ اگر ججز کی تقرری کا معاملہ تبدیل کیا گیا تو ہم اس کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر اڑادینگے تو سوال یہ ہے کے ججز کی تقرری کا معاملہ کون سا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی میں آتا ہے۔ سعید غنی نے کہا کے میری رائے میں 19ویں ترمیم نہیں آنی چاہئے تھی۔ پی ٹی آئی کے عشق میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63اے کی دوبار متضاد تشریح کی۔ پیپلز پارٹی ہیومن رائٹس سیل کی جنرل سیکرٹری ملائکہ رضا نے کہا کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر آئینی عدالت کے قیام پر سول سوسائٹی سے مشاورت کر رہے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری آئینی عدالت کے قیام کے لئے وسیع تر مشاورت اور ہم آہنگی کے خواہاں ہیں۔ ملائکہ رضا نے کہا کے دنیا بھر میں آئینی معاملات کے لئے آئینی عدالتیں قائم ہیں اس لئے پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کے لئے جمہوری طریقہ اختیار کرکے اگر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پیدا کر رہی ہے تو اس پر اتنا شور کیوں ہے۔

مزیدخبریں