سپریم کورٹ میں 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آئیں اور ہمیں بےعزت کریں یہ ہم ہرگزبرداشت نہیں کریں گے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران آج ایک پی ٹی آئی ورکر مصطفین کاظمی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ 5 رکنی لارجر بینچ غیرآئینی ہے، 500 وکیل ہمارا باہر ہے، دیکھتے ہیں آپ کیسے ہمارےخلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے مصطفین کاظمی کو بیٹھنے کی ہدیت کرنے کے باوجود نہ بیٹھنے پر جسٹس قاضی فائز نے پولیس کو ہدایت کی کہ اس جینٹل مین کو باہر نکالیں۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفرکو مخاطب کرکے کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ علی ظفر آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں یہ ہم ہرگزبرداشت نہیں کریں گے, ججز سے بدتمیزی کا یہ طریقہ اب عام ہوگیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بیرسٹرعلی ظفرسے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے رویے سے جو تھوڑی ہمدردی تھی، وہ بھی ختم ہوگئی۔چیف جسٹس نے علی ظفر سے کہا کہ آپ نےکہا فیصلہ سنادیں توہم نے سنادیا، ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے بینچ کا اعتراض مستردکرتےہیں۔اس پر علی ظفر نے کہا کہ بینچ بنانے والی کمیٹی کے ممبر بینچ کا حصہ ہیں، خود کیسے بینچ کی تشکیل کو قانونی قرار دے سکتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہو تو ججز کمیٹی کے ممبر کسی بینچ کا حصہ ہی نہ بن سکیں، آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔اس موقع پر جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ میں 63 اے کیس میں بینچ کا حصہ تھا،کیا اب میں نظرثانی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کرسکتا ہوں؟ کیا ایسا کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں ہوگی؟چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہاں تو فیصلوں کو رجسٹرار سے ختم کرایا جاتا رہا ہے، میں نے بینچ میں ان ہی ججز کو شامل کرنے کی کوشش کی، میں کسی کو مجبور نہیں کرسکتا۔بعدا زاں عدالت نے کیس کی سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔