اسلام آباد گذشتہ 21 دنوں سے عمران خان اور طاہر القادری کے کارکنوں کے احتجاجی دھرنوں اور اب پولیس کے ساتھ جھڑپوں کی وجہ سے پوری دنیا کے میڈیا میں تماشا بنا ہوا ہے۔ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ جاوید ہاشمی مارشل لا کو آتا دیکھ کر عمران خان سے دور چلے گئے۔ پوری قوم اس وقت اضطرابی کیفیت کا شکار ہے ملک کو اس آگ کی وجہ سے آٹھ سو ارب روپے کا معاشی نقصان ہو چکا ہے لیکن سب اپنی انا کی تسکین، کرسی بچانے اور کرسی حاصل کرنے کیلئے اندھے ہو چکے ہیں۔ ملک میں 1977ء جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دھرنوں اور احتجاجی مارچ کے بعد اب اسلام آباد میں جنگ کا سماں ہے۔ مقامی لوگوں کا روزگار ختم ہو چکا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری نے اب حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دونوں رہنما اب اس لگی آگ کو مزید بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم میاں نواز شریف کو اب بھی یہ امید ہے کہ ان کی حکومت قائم رہے گی۔ آس اور امید یقیناً انسان کی فتح میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں لیکن جب پانی سر سے گزرنے لگے اور آگ پانی سے بھی نہ بُجھے تو پھر یقینًا حکمرانوں کو اقتدار اور کرسی کی قربانی ہی دینا پڑتی ہے۔ 1977ء کی تحریک نظام مصطفی جب شروع ہوئی تھی اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ تحریک میرے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ بھٹو کو بھی اپنے اوپر بڑا اعتماد تھا کہ اس کی کرشماتی شخصیت کے سامنے کسی کا چراغ گل نہیں ہو سکتا۔ مولانا کوثر نیازی اور عبدالحفیظ پیرزادہ انہیں سب اچھا ہے کی رپورٹ مارشل لا آنے سے کچھ دیر قبل بھی دیتے رہے اور پھر مولانا کوثر نیازی ہی نے اپنی کتاب اور ’’لائن کٹ گئی‘‘ میں اس کہانی کو بیان کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ہی ’’لے ڈوبے‘‘ اب ان اپنوں میں کون شامل تھا وہ بھی منظر عام پر آ چکا ہے جسے اب دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 1977ء کی لگی آگ کو بجھانے کیلئے تو اس وقت مفتی محمود اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسی شخصیات نے اپنا بھرپور جمہوری کردار ادا کیا تھا جبکہ مارشل لا لگنے سے تین گھنٹے قبل مسٹر بھٹو کے قومی اتحاد کے رہنمائوں سے مذاکرات بھی کامیاب ہو گئے تھے جس میں وزیراعظم مسٹر بھٹو دوبارہ شفاف انتخابات کرانے پر راضی ہو گئے تھے۔ ملکی تاریخ میں 1977ء کی احتجاجی تحریک سب سے بڑی تحریک تھی اور آج ملکی تاریخ میں عمران خان اور طاہر القادری کے احتجاجی دھرنے سب سے طویل دھرنے اور ایک ہی جگہ کیا جانے والا احتجاج ثابت ہو چکے ہیں۔ 18 دنوں تک پُرامن احتجاجی دھرنوں نے اب اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے۔ اب کچھ دنوں تک یہ آنکھ مچولی اپنا اصل روپ سامنے لے آئے گی جس میں یقیناً وزیراعظم میاں نواز شریف کو لچک دکھانا پڑے گی چاہے وہ کسی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام آباد میں لگی آگ اگر دوسرے شہروں تک پھیل گئی تو پھر حکومت کو بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کامیاب تحریکیں ہمیں ایجی ٹیشن ہی کے ذریعے کامیاب ہُوا کرتی ہیں۔
اسلام آباد کے مظاہرین پہلے دن تو اِدھر اُدھر ہو گئے اور پھر پولیس کے ساتھ مقابلہ بھی کرتے رہے لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ دھرنوں کی طرح لاٹھی چارج اور آنسو گیس کو بھی کچھ نہیں سمجھ رہے۔ بہرحال اب حکومت کے مزید اعصاب شکن دنوں کا آغاز ہو چکا ہے جو آئندہ دو تین دنوں تک کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں۔ اس وقت تو ہر طرح مارشل لاء آنے کی آوازیں بڑی شد و مد کے ساتھ سنائی جا رہی ہیں، بڑے بڑے سینئر اینکر پرسن اپنے اپنے ٹی وی پروگراموں کے ذریعے مارشل لاء کے بارے میں دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ آرمی چیف یہ سب کچھ بڑی خاموشی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز کور کمانڈر کانفرنس بھی یقیناً ملکی حالات کے بارے میں منعقد کی گئی جس کے اندر کی باتیں ابھی اندر ہی ہیں لیکن آندھی آنے کے بعد کچھ نہ کچھ ضرور ہوا کرتا ہے۔ جاوید ہاشمی جیسے زیرک سیاستدان بھی شاید کسی بڑی آندھی چلنے کا ادراک کر کے ہی عمران خان سے دور ہو گئے ہیں جن کا اندازہ انہوں نے شیخ رشید کی طرف سے عمران خان کے کان میں کچھ کہنے یا پڑھنے کی وجہ سے اس وقت لگایا جب عمران خان نے اچانک اپنے لشکر کو آگے پارلیمنٹ کی طرف بڑھنے کا اعلان کیا، اس اعلان سے جاوید ہاشمی کو اندازہ ہو گیا کہ اب ہدایتکار نے معاون ہدایتکار شیخ رشید کو کیا حکم دیا ہے کہ جس حکم پر عمران خان نے بھی مجبوری ظاہر کر دی ہے۔ یہ بات تو اب واضح ہو چکی ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں اور اب حکومت سے لڑائی شروع ہونے کے بعد بھی ڈٹ جانا یقیناً کسی بڑی طاقت ہی کا اشارہ اور تھپکی سے چل رہی ہے کہ وزیراعظم کا استعفیٰ ہی حالات کو پُرامن بنا سکتا ہے۔ حکومت اور دھرنوں کے قائدین 18 دنوں تک ایک دوسرے کو ہرانے کیلئے تقریریں کرتے رہے جب اس پر بات بنتی نظر نہ آئی تو اب ایجی ٹیشن ہی شروع کرا دیا عوامی تحریک کی خواتین اور بچے اس وقت سب سے زیادہ مشکل میں ہیں کیونکہ یہ دونوں حضرات تو صرف طاہر القادری کے مجمعے کا اصل حصار تھے کہ جن پر پولیس اور انتظامیہ لاٹھی چارج کرنے سے ڈرتی تھی لیکن اب میدان جنگ بننے کے بعد طاہر القادری کے یہ ہتھیار بھی ابھی تک کام نہیں کر رہے جبکہ عمران خان کی خواتین پہلے ہی میدان جنگ سے باہر ہو چکی ہیں۔ اب صورتحال مزید خراب ہوتی نظر آ رہی ہے حالات تیزی سے بدل کر آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اب بھی ایک چانس ان تین بڑی طاقتوں نواز شریف، عمران خان اور طاہر القادری کے پاس موجود ہے کہ اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر ملک اور قوم کیلئے مذاکرات شروع کر دیں اگر ایسا نہ ہوا تو پھر تاریخ اور قوم ان تینوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ اب آخر کسی نے تو اس لگی آگ کو بجھانا ہے پھر کہیں کوئی بڑی طاقت یہ کہتی نظر نہ آئے :
شریک سازش میخانہ دہر حرم تم ہو
امین عظمت میخانہ دہر حرم ہم ہیں
طلوع انقلاب تو ہمارے نام پر ہو گا
سکوت شب سے پوچھو صبح کی پہلی کرن ہم ہیں