اذانیں دینی پڑیں گی!

پاکستان کی سیاسی تاریخ احتجاجی تحریکوں اور دھرنوں سے مزین ہے، پچاس کی دہائی سے لے کر دوسرے ہزاریے کی دوسری دہائی تک احتجاجی تحریکوں کی ایک طویل فہرست دستیاب ہے، جو پاکستان میں حکومتوں کے اکھاڑ پچھاڑ کا سبب بنیں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام آبادکے ریڈزون میں تیسرے ہفتے تک پھیلے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاجی دھرنوں کی طوالت سے پاکستان کی احتجاجی سیاسی تاریخ میں نئے باب رقم ہوئے ہیں۔ ان دھرنوں کا نتیجہ چاہے جو بھی ہو لیکن آنیوالے دنوں میں پاکستانی سیاست پر ان دھرنوں کے گہرے اثرات ضرور مرتب ہونگے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس سے قبل ڈرون حملوں کے خلاف اور نیٹو کی سپلائی روکنے کیلئے جو دھرنے دیے تھے، وہ جلد ہی ختم ہو گئے اور شرکاء بھی آہستہ آہستہ کھسک گئے، لیکن دو ہفتے سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود اسلام آباد کے ریڈ زون میں دھرنوں کے شرکاء اپنی اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہیں، بالخصوص ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک کے کارکنوں کی تعداد اور جذبے میں کمی دکھائی نہیں دیتی، اس طرح بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ دھرنے ایک مکتبہ فکر کے عزم و ہمت کی نئی داستان رقم کر رہے ہیں لیکن جہاں یہ دھرنے عام آدمی کی توقعات سے کہیں زیادہ دیرپا اور ثابت قدم واقع ہوئے ہیں، وہیں یہ دھرنے پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کی خواہشات پر مکمل پورا نہیں اُترے۔ مثال کے طور پر حکومت سمجھتی تھی کہ دھرنے کے شرکاء آئینگے اور ایک دو دن میں اکتا کر اور تھک کر خود ہی یہاں سے واپس لوٹ جائینگے، لیکن حکومت کی یہ توقع پوری نہیں ہو سکی۔ اسکے برعکس سولہ دن گزرنے کے بعد بھی عوامی تحریک کے کارکن دھرنے میں ڈٹے ہوئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے لوگ بھی (اگرچہ کم تعداد میں ہی سہی) شام ڈھلتے ہی پنڈال میں واپس آ جاتے ہیں اور دونوں طرف میلہ سج جاتا ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف اور عوامی تحریک دونوں کو امید تھی کہ دھرنے میں لاکھوں لوگ شامل ہونگے لیکن شرکاء کی تعداد لاکھوں میں ہونے کی بجائے ہزاروں میں ہونے پر اُنکی یہ توقع پوری نہیں ہو سکی۔ دھرنے کے قائدین یہ بھی توقع کر رہے تھے کہ نواز شریف اور شہباز شریف دھرنے اور انقلاب کے خوف سے فورا استعفیٰ دیدینگے لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکا۔ ریڈ زون کی موجودہ صورتحال سے پہلے حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان مذاکرات میں کئی دفعہ ڈیڈ لاک پیدا ہوا اور کئی مرتبہ مذاکرات بحال ہوئے۔ مذاکرات کسی نتیجے پر پہنچنے ہی والے تھے کہ دھرنے والوں نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب پیشقدمی کا اعلان کر دیا۔ وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھتے ہوئے پولیس کے ردعمل سے علاقہ میدان جنگ بن گیا، پانچ سو کے قریب مظاہرین اور پولیس اہلکار زخمی ہوکر ہسپتال پہنچ چکے ہیں، علاقہ میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان موجودہ صورتحال دیکھ کر کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات میں پیدا ہونیوالا ڈیڈ لاک اب ختم نہیں ہو گا۔ دوسری جانب ملک میں سیاسی صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک جانب جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس نے اگر عمران خان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے تو دوسری جانب کور کمانڈر کانفرنس میں فوجی قیادت نے موجودہ صورتحال پر تشویش (دوسرے معنوں میں ناگواری) کا اظہار کیا گیا ہے۔ اُدھر حکومت نے پارلیمنٹ ہاؤس میں دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بُلانے کا بھی اعلان کر دیا ہے، لیکن اصل مسئلہ جوں کا توں ہے اور وہ ہے حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان مذاکرات میں پیدا ہونیوالا ڈیڈ لاک۔ مسلم لیگ (ن) وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے استعفوں پر راضی ہورہی ہے ناں ہی دھرنے والے اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں، ایسی صورت میں یہ سوال بہت ابھر کر سامنے آتا ہے کہ اگر کوئی لچک نہیں دکھائے گا تو پھر کیا ہوگا؟ بات ایسے ہی چلتی رہی تو آنسو گیس ، ڈنڈوں اور غلیلوں کی جگہ بندوقیں اور کلہاڑیاں لے لیں گی، پیٹرول بموں سے حملے ہونگے، پارلیمنٹ ہاؤس سمیت اہم عمارتیں نذر آتش ہونگی اور دونوں طرف سے لاشیں گرینگی۔ اس سنگین ترین صورتحال میں فوج کے پاس سامنے آنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ عسکری قیادت کی جانب سے برملا کہا بھی جا چکا ہے کہ فوج قومی امنگوں اور خواہشات کو پورا کرنے کیلئے پیچھے نہیں رہے گی۔ عوام کی یہ ’’امنگیں اور خواہشات‘‘ کیا ہونگی؟ یقیناً اس کا تعین سیاستدان کریںگے نہ عوام سے پوچھا جائیگا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ فوج اور نواز شریف کے درمیان مختلف معاملات پر ایک مرتبہ پھر کارگل والی صورتحال پیدا ہو چکی ہے اور یہ صورتحال مختلف وجوہات کی بنا پر اُس نہج پر پہنچ چکی ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ لیکن وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ آرمی چیف کی تسلسل کے ساتھ ملاقاتیں اگر اس تاثر کی نفی کرتی ہیں تو دوسری جانب بہت سے معاملات اختلافات کے اِس تاثر کو ہَوا بھی دیتے ہیں، جیسا کہ ’’ثالثی‘‘ کے معاملے پر حکومتی اور فوجی ترجمان کے بیانات میں تضاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ دوسری جانب یہ بھی طے ہے کہ بالفرض اگر فوج کو کسی صورت آنا ہی پڑا تو فوج براہ راست خود ٹیک اوور نہیں کریگی۔ یہ صورتحال ٹیکنو کریٹس، قومی حکومت یا حکومت میں فوج کے آئینی کردار پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ اُدھر مارشل لاء کا خوف سیاسی جماعتوں کے اعصاب پر بُری طرح سوار ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کی بچی کھچی توقیر کو محفوظ کرنے کے جتن کر رہی ہیں، ان کوششوں کو دیکھ کر یہ بعید نہیں کہ ڈیڈ لاک ٹوٹ جائے اس لئے ضروری ہے کہ مزید تصادم سے بچنے کیلئے دونوں فریق مذاکرات کی میز پر لوٹ آئیں اور سیاستدان مل کر ’’وِن وِن سیچوایشن‘‘ والا کوئی معاہدہ کر لیں۔ ایک ایسا معاہدہ جس میں کسی کو اپنی شکست دکھائی نہ دے اور ہر کوئی اسے اپنی فتح سمجھے، اس مقصد کیلئے ’’سراج کائرہ فارمولہ‘‘ کے مطابق معاہدہ تیار کیا جا سکتا ہے، جس میں دھرنے کے شرکاء کو پارلیمنٹ کی ضمانت فراہم کر کے اس صورتحال سے نکلا جا سکتا ہے۔قارئین کرام! موجودہ صورتحال پر کالم لکھنے کیلئے تاریخ میں اتنے واقعات ہیں کہ ایک چھوڑو ہزار ملتے ہیں، لیکن جان بوجھ کر اس کالم کو کسی تاریخی واقعے کے ساتھ نتھی کرنا مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ جب سامنے تاریخ بن رہی ہو تو پھر ماضی میں جانا مناسب نہیں ہوتا، بالکل اسی طرح جیسے منزل سامنے نظر آ رہی تو سفر کی تھکان کو غالب نہیں ہونے دیتے۔ ریڈ زون میں واقعی تاریخ بن رہی ہے، ریڈ زون میں تاریخ کا کوڑا دان منہ کھولے کھڑا ہے، دیکھئے کون کون اس کا رزق بنتا ہے؟ انہی کالموں میں مَیں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اہل دانش نے یہ گتھی بڑی محنت سے اُلجھائی ہے اس لیے آسانی کے ساتھ نہیں سلجھے گی، ممکن ہے کہ ہاتھوں سے دی جانے والی گانٹھیں بعد میں دانتوں سے کھولنی پڑیں اور تبدیلی کی جس بارش کیلئے نمازیں پڑھی جا رہی ہیں، اگر اس تبدیلی کی ایک دو بوندیں بھی برس پڑیں تو اسکے بعد وہ طوفانِ باد و باراں شروع ہو گا اور ایسا جھکڑ چلے گا کہ اسے رکوانے کیلئے چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینی پڑھیں گی!

ای پیپر دی نیشن