سیاست میں دھکیل کر فوج کو نئے محاذ پر الجھانے کی چال

فرخ سعید خواجہ
سازشیں کامیاب ہو گئی ہیں‘ مارشل لاءکی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ گھیراﺅ جلاﺅکے نیتجے میں جمہوریت سسک رہی ہے۔ وزیراعظم ہاﺅس اور پارلیمنٹ ہاﺅس پر ڈنڈے کے زور پر قبضہ کی کوشیں کرنے اور ان کی کوشش کو ناکام بنانے والے قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک ہی پلڑے میں رکھے جا چکے ہیں۔ سیاسی رہنماﺅں کے بیانات ہوں یا کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ دونوں کے نزدیک چڑھائی کے ذریعے مطالبات منوانے والے ڈاکٹر طاہر القادری‘ عمران خان اور وزیراعظم نوازشریف ایک برابر ہیں۔ الطاف بھائی نے نوازشریف کو مشورہ دے دیا ہے کہ از خود طاہر القادری اور عمران کے کنٹینرز میں چلے جائیں۔ اس صورتحال میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سوموار کو اسلام آباد میں قومی کانفرنس طلب کر لی ہے جس میںدھرنے میں شریک سیاسی جماعتوں سمیت ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا ہے۔ ان میں کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا وہ سامنے آ جائے گا تاہم ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی میں جھانک لیں تو بے جا نہ ہو گا کہ یہاں سیاسی جماعتوں کا کیا کردار رہا ہے۔
ستمبر 1999ءمیں گرینڈ ڈیمو کرٹیک الائنس (جی ڈی اے) کے نام سے ایک سیاسی اتحاد وجود میں آیا تھا۔ اس اتحاد میں بے نظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی‘ نوابزادہ نصراللہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک‘ عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف‘ الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ‘ حامد ناصر چٹھہ کی مسلم لیگ ج سمیت چند دیگر پارٹیاں شامل تھیں۔ ان جماعتوں کا جی ڈی اے بنانے سے پہلے ایک سیاسی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد (پائی) کے نام سے قائم تھا۔ اس میں پاکستان تحریک انصاف آخری دنوں میں قریب آئی جبکہ جنرل (ر) اسلم بیگ کی عوامی قیادت پارٹی ”پائی“ میں شامل تھی پاکستان عوامی اتحاد کا گیارہ نکاتی ایجنڈا تھا جس کا بہت زیادہ چرچا تھا۔ جنرل (ر) اسلم بیگ جو ”پائی“ کے اہم رہنماﺅں سے ایک جماعت کے سربراہ تھے نے اس دوران تمام تر حالات کا بغور جائزہ لے کر ون پوائنٹ ایجنڈا ”نوازشریف ہٹاﺅ“ سے اختلاف کیا۔ جس کے نتیجے میں انہیں P A I سے الگ کر دینے کے لئے ہی نئے اتحاد کا تشکیل دیا گیا تھا۔
 ان دنوںجی ڈی اے سے باہر دو اہم جماعتیں تھیں ان میں قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی اور سردار فاروق خان لغاری کی ملت پارٹی شامل تھیں۔یہ دونوںجماعتیں بھی وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کے خلاف تھیں۔ یوں جی ڈی اے کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ اس سے باہر کی جماعتیں بھی نوازشریف حکومت کے خلاف میدان عمل میں تھیں۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ساتھ وزیراعظم نوازشریف کے تعلقات کس قدر کشیدہ تھے۔ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
 آج ملک کے سیاسی منظرکا جائزہ لیا جائے تو ایک بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ پارلیمان کی سوائے ایک کے کم و بیش تمام جماعتیں دستور کے تحفظ کے مسئلے پر حکومت کے ساتھ متفق ہیں اس وقت حکومت کے خلاف باقاعدہ کوئی سیاسی اتحادموجود نہیں ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف‘ پاکستان عوامی تحریک ‘ مسلم لیگ ق ‘ مجلس وحدت المسلمین‘ عوامی مسلم لیگ اور سنی اتحاد کونسل اکٹھی چل رہی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کا کردار بھی قوم کے سامنے ہے۔ پہلے انہوں نے آئین جمہوریت‘ پارلیمنٹ بچانے کے نام پر حکومت کے ساتھ دست تعاون بڑھایا۔ ان کے اس کردار کے باعث الطاف حسین کے سیاسی قد میں اضافہ ہوا۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کی طرف سے صحیح اور غلط کی تمیز ختم ہوتی چلی گئی اور ان کی تنقید کا نشانہ وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ ہفتہ کو دھرنے والی جماعتوں نے ریڈ زون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعظم ہاﺅس پر چڑھائی کر دی تو سرکاری املاک کو بچانے کیلئے کئی روز کے صبر و برداشت کے بعد پولیس مر تی کیا نہ کرتی ۔ وزیراعظم ہاﺅس کی حفاظت کے لئے رکھے گئے کنٹینروں کے پیچھے سے احتجاج کرنے والوں کو روکنے کے لئے جب آنسو گیس پھینکی گئی اور لاٹھی چارج کیا گیا تو اسے حکومت کی غلطی قرار دیا گیا۔ مظاہرین نے ڈنڈوں‘ ہتھوڑوں اور کٹر جیسے مخصوص ٹولز کا جس منظم طریقے سے استعمال کیا اور غلیل کے ذریعے شیشے کی گولیاں پولیس پر برسائیں۔ اس کے باوجود انہیں معصوم قرار دیا جائے تو یہ حقائق سے چشم پوشی ہی ہو سکتی ہے۔حالانکہ طاقت کے استعمال کا یہ وہی بے رحم کھیل ہے جس کا آغاز کرتے ہوئے ان مظاہرین نے اپنے ساتھ آئی ہوئی خواتین اور بچوں کا بھی خیال نہیں کیا۔ بعد میں
 کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ بھی اس سپرٹ کا اظہار کیا گیا جسے دھرنے اور اشتعال کو ہوا دینے والی دونوں جماعتوں کے رہنما اپنے من مانے معنی کا جامہ پہناتے رہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سوموار کے دن مظاہرین کو جب فری ہینڈ ملا اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا ، قوم نے ٹی وی چینلوں پر دیکھا مگر ڈاکٹر طاہر القادری ‘ عمران خان سمیت الطاف حسین کی طرف سے بھی اس توڑ پھوڑ اور لشکر کشی کی کوئی مذمت نہیں کی گئی۔ ادھر عمران خان کی کال پر کراچی‘ ملتان‘ فیصل آباد کی طرح لاہور میں بھی گھیراﺅ کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار کو شریفوں کی سابقہ رہائش گاہ اور مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹریٹ 180/H ماڈل ٹاﺅن پر دھرنا دیا گیا۔ فیروز پور روڈ پر احتجاج کرتے ہوئے میٹرو بس کے ٹریک پر قبضہ کر لیا گیا۔ جاتی عمرہ جانے کے اعلان کئے گئے اس سے صورتحال واضح ہو گئی ہے کہ ان تمام حرکات کے مقاصد کیا ہیں ۔ یہ کیسی قیادت ہے جسے اس بات پر غور کرنے کی فرصت نہیں ہے کہ وہ فوج کو بلا وجہ سیاست میں گھسیٹ رہی ہے ۔حالانکہ فوج کی قیادت اس بات کا بخوبی ادراک رکھتی ہے کہ اسے سیاست مین دھکیلا گیا تووہ دلدل میں دھنس جائے گی۔ پاکستان کی مشرقی و مغربی سرحدوں کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ وزیرستان آپریشن جاری ہے ان حالات میں مارشل لاءآنا ملکی سالمیت کو نقصان پہنچائے گا۔ تین دھائیاں فوج ملک پر حکمرانی کر چکی ہے اس کے باوجود پاکستان مسائل زدہ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ فوجی حکمرانی ملک کے لئے مفید نہیں رہی۔ تاہم یہ حقیقت بھی کھل کرسامنے آ گئی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں شخصی جماعتوں کا وجود جمہوریت کے استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ جس جماعت کے چاہنے والے ہوں انہیں اپنے لیڈر کی اچھی بری ہر بات سے اتفاق ہوتا ہے اور وہ اپنے لیڈر کے موقف کا دفاع بھی کرتے ہیں‘ مخدوم جاوید ہاشمی جیسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز جس طرح عمران خان اور شیخ رشید کی ملک میں مار شل لاءلگوانے کیلئے جاری حکمت عملی کو بے نقاب کر دیاہے ،اس کے بعد کسی ذی شعور کو غلط فہمی باقی نہیں رہنی چاہیئے کہ جنرل الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کی آڑ میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ لہٰذا توقع رکھنی چاہئے کہ افواج پاکستان اپنے آئینی کردار تک محدود رہیں گی اور فوجی حکمرانی قائم کرنے کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گی۔

ای پیپر دی نیشن