شہباز شریف اور چودھری نثار نے بہت اچھا سیاسی دوستانہ اور دلیرانہ مشورہ نواز شریف کو دیا ہے ’’بلیک میل نہ ہوں۔ کرپشن کے خلاف ڈٹے رہیں‘‘ وفاق میں نواز لیگ کے لئے چودھری نثار ایک نعمت کی طرح ہے۔ آج کل عسکری معاملات کے حوالے سے جنرل راحیل شریف اور سیاسی صورتحال کے لئے چودھری نثار بہت پسند کئے جاتے ہیں۔ دوٹوک اور کھری سچی بات کرنا اللہ کی رحمت ہے جو کسی کسی انسان کو نصیب ہوتی ہے۔ دوست وہی ہے جو اپنے دوست کو صحیح اور غلط کے فرق کو واضح کرکے بتائے۔ اس حوالے سے عبدالقادر بلوچ نے بھی ڈٹ کر بات کی ہے۔ ’’زرداری صاحب جنگ چاہتے ہیں تو بسم اللہ‘‘ میں بلوچ صاحب کو بتاتا ہوں کہ ’’صدر‘‘ زرداری ایسی کوئی کارروائی نہیں چاہتے جسے جنگ کہا جاتا ہے۔ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ یہ محاورہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ زرداری صاحب کو کس نے تنگ کیا ہے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ نواز شریف نے انہیں تنگ نہیں کیا تو پھر وہ کیوں خفا ہوئے؟ ایم کیو ایم یعنی الطاف حسین یعنی الطاف بھائی بھی جنگ کا اعلان کر رہے تھے۔ میرے خیال میں ’’جنگ‘‘ تو ہو رہی ہے تو پھر اعلان جنگ؟
برادرم زرداری صاحب کو میں ہمیشہ ’’صدر‘‘ زرداری لکھتا ہوں۔ وہ اب بھی اپنے آپ کو ’’صدر‘‘ سمجھتے ہیں۔ جس پارلیمانی جمہوریت میں وہ ’’صدر‘‘ تھے تو ممنون حسین کیا ہیں؟ کیا ان کا موازنہ ممنون صدر سے کیا جا سکتا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے یہ بات بھی شرمناک اور عبرتناک ہے کہ ممنون صاحب کو بھی صدر ممنون حسین کہا جاتا ہے۔
نااہل اور مبینہ کرپٹ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے لئے نواز شریف نے حکم دیا ہے کہ انہیں گرفتار نہ کرو حالانکہ یہ حکم انہیں نہیں دینا چاہئے تھا۔ وہ جو کچھ بھی تھے انہیں وزیراعظم پاکستان کہا جاتا تھا۔ ان کا موازنہ بھی نواز شریف سے نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں وزیراعظم ’’صدر‘‘ زرداری نے بنایا تھا اور ممنون صاحب کو وزیراعظم نواز شریف نے صدر بنایا ہے۔ وہ دونوں اپنی اپنی حقیقت بلکہ اپنی اپنی تلخ حقیقت خود جان لیں۔ بات اختیار کی نہیں ہے بات وقار کی ہے اور صدر ممنون حسین نااہل وزیراعظم گیلانی سے ہزار درجے زیادہ باوقار ہیں۔
’’صدر‘‘ زرداری کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کو مفلوج کر دیا گیا ہے۔ کیا سندھ حکومت کے وزیر شذیر ’’صدر‘‘ زرداری کی مرضی کے مطابق کام نہیں کر پا رہے ہیں؟ وہ کہتے ہیں نواز شریف انتقامی سیاست نہ کریں۔ نتائج بھیانک ہوں گے۔ کیا سندھ حکومت کسی سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے؟ یہی حکومت ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے عذاب بن گئی ہے ورنہ وہ تو صرف ’’ثواب‘‘ کمانے کے لئے یہ خواہش اور کوشش رکھتے تھے۔ کیسی بامعنی اور معنی خیز بات ’’صدر‘‘ زرداری نے کی ہے کہ نواز شریف 90والی سیاست دہرا رہے ہیں تو یہ بات ’’صدر‘‘ زرداری کے حق میں جاتی ہے۔ تب پیپلز پارٹی کے بعد نواز شریف اور نواز شریف کے بعد بینظیر بھٹو وزیراعظم بنی تھیں پھر نواز شریف وزیراعظم بنے تھے اور پھر اب جلاوطنی کے بعد انہیں ہم وطنی نصیب ہوئی ہے اور وہ وزیراعظم ہیں۔ انہیں جلاوطنی اور ہم وطنی کے فرق کو محسوس کرنا چاہئے؟اگر 90والی سیاست کو دہرانا مقصود ہے تو ’’صدر‘‘ زرداری کو مبارک ہو۔یہ بات وہ نرم لہجے میں کریں۔ اگر اس دوران جیل یاترا ہوتی ہے تو وہ پہلے بھی جیل سے رہا ہو کے ایوان صدر پہنچے تھے؟
’’صدر‘‘ زرداری نے فرمایا کہ سندھ میں وفاق کی کارروائیاں خلاف آئین ہیں۔ سندھ میں کارروائی رینجرز کر رہی ہے اور اس کارروائی کے لئے جنرل راحیل شریف کے سامنے مودبانہ اجازت ساری سیاسی جماعتوں نے دی تھی۔ کیا کمال ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری نے فوج اور وفاقی حکومت کو ایک پیج پر لکھ دیا ہے۔ یہ ان کی سب سے بڑی یادگار تحریر تاریخ میں ہوگی۔ مگر کبھی انہوں نے اس پیج پر لکھے ہوئے کو پڑھنے کی زحمت نہیں کی پیج کو صفحہ اور ورقہ کہتے ہیں ورق کے دوسری طرف بھی دیکھیں۔ کیا لکھا ہوا ہے؟ چلیں ہم ’’صدر‘‘ زرداری کو ایک بھارتی شاعرہ امرتا پریتم کا یہ مصرعہ سناتے ہیں۔ امرتا گوجرانوالہ کی رہنے والی تھی۔
توں اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
’’صدر‘‘ زرداری کتاب سے ہی آشنا نہیں ہیں تو
کتاب عشق تو انہوں نے دیکھی ہی نہ ہو گی۔ وہ صرف کتاب حکومت کے عاشق ہیں۔ ایک کتاب حکمت بھی ہے۔ انہیں پتہ ہی نہ ہو گا کہ یہ کیا چیز ہے۔ نواز شریف بھی کتاب عشق کا پچھلا ورقہ بار بار کھولتے ہیں مگر پڑھتے وہ بھی نہیں۔
نواز شریف کے ساتھ ’’صدر‘‘ زرداری نے رانا مشہود کو بھی رگڑا لگا دیا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کریں۔ ان کے لئے تو وڈیو ثبوت موجود ہیں۔ یہ شکایت یا خفگی ’’صدر‘‘ زرداری کو شہباز شریف کو کرنا چاہیے تھی۔ مگر شاید شہباز شریف سے ڈر کے انہوں نے نام نہیں لیا۔ کہ شہباز شریف نے ’’صدر‘‘ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی دھمکی دی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کی سب لوٹ مار کا پیسہ وطن میں واپس لایا جائے گا۔ انہوں نے سیاسی طور پر معذرت کی ہے۔ ان کی دھمکی ابھی قائم ہے۔ یہ دھماکہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور ’’صدر‘‘ زرداری دھماکوں سے بڑے ڈرتے ہیں۔
’’صدر‘‘ زرداری نے یہ بھی کہا ہے نواز شریف کو بیرونی امداد بھی ملی ہے۔ کوئی اس کا ثبوت مانگے گا تو کہیں گے میرے سامنے ہی تو ملی تھی اس حمام میں سب ننگے، ننگے کو ننگے سے شرم نہیں آتی۔ وہ شہباز شریف کے اس سوال کا جواب دے دیں کہ سوئٹزر لینڈ میں ڈالر ’’صدر‘‘ زرداری کے نہیں ہیں تو پھر کس کے ہیں؟
پہلے صدر زرداری نے راحیل شریف کے خلاف بڑھک لگائی تھی اب نواز شریف کو بڑھک ماری ہے۔ انہوں نے اب رینجرز کے خلاف کیوں بیان نہیں دیا۔ اعلان جنگ پہلے بھی انہوں نے کیا تھا اور بیرون ملک چلے گئے۔ دبئی چلے گئے اب لندن میں ہیں۔ وہ لندن سے زیادہ دبئی کو اپنے لئے محفوظ پناہ گاہ خیال کرتے ہیں۔ پناہ گاہ کبھی مورچہ نہیں ہوتی؟
جیلوں سے نہ ڈرنے والے ’’صدر‘‘ زرداری کی زیادہ قید جیل میں نہیں گزری۔ وہ ڈاکٹر ضیا الدین ہسپتال کے کمرے میں عیش کرتے رہے۔ ڈاکٹر عاصم اس ہسپتال کے سربراہ ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری اب جیل گئے تو ڈاکٹر قیوم سومرو بھی انہیں ہسپتال میں نہیں بھجوائیں گے تو ہسپتال میں ساری ضروریات کیسے پوری ہونگی؟ مجھے یقین ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری اب کبھی پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔ ڈاکٹر عاصم کا حشر تو ان کے سامنے ہے۔ کئی لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ سب ’’صدر‘‘ زرداری کا ٹوپی ڈرامہ ہے؟
’’صدر‘‘ زرداری کو پتہ ہو کہ پناہ گاہ مورچہ نہیں ہوتی
Sep 02, 2015