دور دراز دیہات کا سکول تھا جب بھی کسی استاد یا استانی کی وہاں تقرری ہوتی لوگوں کو امید کی کرن نظر آتی۔ لیکن چند ہی ماہ میں وہ اپنا تبادلہ کروا کر کسی اور علاقے میں منتقل ہو جاتے اور لوگوں کی امید پھر سے یاس میں تبدیل ہو جاتی۔ اس کی وجہ اس سکول کا مین روڈ سے دور ہونا تھا۔ اس تک پہنچنے والی چھوٹی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ بارش ہو جانے سے تو یہ ناقابل استعمال ہو جایا کرتی تھی۔ ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی یہاں ٹک کر کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔
پھر ایک بار ایک استانی کی تقرری ہوئی۔ لوگوں نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ گا¶ں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سکول کی صفائی ستھرائی کی۔ سکول کے دو ہی کمرے تھے۔ ایک میں سکول کا سامان پڑا تھا اور دوسرے کو بطور کلاس روم استعمال کیا جانے لگا۔ سکول کے مختصر سلامت فرنیچر میں ایک کرسی اور ایک قدیمی میز شامل تھے۔ درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سکول گا¶ں سے ایک ڈیڑھ ایکڑ کے فاصلے پر تھا۔ پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ واش روم کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ استانی صاحبہ اوربچوں کے استعمال کیلئے پانی بچے خود گا¶ں سے ہی لے کر آیا کرتے تھے۔ ایک ہی مہینے میں بچوں کی تعداد ایک سو سے اوپر ہو گئی۔
اتنے زیادہ بچے اور وہ بھی مختلف کلاسز کے‘ انہیں پڑھانا واحد استانی کے بس کی بات نہیں تھی۔ اب وہ ان سے جان چھڑوانے کے منصوبے بنانے لگی۔ ایسا کسی طور ممکن نہیں تھا۔ محکمے کو بھی اور استانی بھیجنے کی قطعاً فکر نہیں تھی۔ ایک دن اسکول کے اس کمرے سے جو اکثر بند رہتا تھا‘ کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ بچوں نے اس آواز کو بھوت کی آواز سمجھا اور سکول سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ استانی صاحبہ خود بھی خوف زدہ ہوئیں لیکن بھاگنے کی بجائے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی سکول سے باہر چلی گئیں۔
پورے گا¶ں میں سکول کا آسیب زدہ ہونا مشہور ہو چکا تھا۔ کوئی ادھر جانے کیلئے تیار نہیں تھا۔ گا¶ں کے مولوی صاحب کچھ لوگوں کے ہمراہ وہاں گئے کچھ پڑھائی وغیرہ کی کچھ وقت وہاں گزارا اور پھر سکول کو آسیب سے آزاد قرار دے دیا کچھ لوگوں نے اپنے بچوں کو پھر سے سکول بھیجنا شروع کردیا لیکن زیادہ تر مولوی صاحب سے متفق نظر نہ آئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سکول کی تعداد سو سے کم ہو کر محض بیس رہ گئی۔ اب استانی صاحبہ کے لئے پڑھانا آسان ہو گیا۔ بے شک وہ ڈرتے ڈرتے ہی سکول جاتی تھیں کیونکہ وہ بھی آخر انسان تھیں جو جنات کے وجود کی زبردست قائل تھیں لیکن بھوت پریت کا ڈران کے لئے فائدہ مند تھا بہ نسبت اس کے وہ سو بچوں کی رنگ برنگی آوازیں سنتیں اور پورا دن کام میں مگن رہتیں۔
گا¶ں کے کچھ بڑوں نے بہت ہی کوششیں کی کہ اس خوف کو دور کیا جائے لیکن لوگ تھے کہ بھوت کے خوف کو اپنے بچوں کے مستقبل پر ترجیح دیتے رہے۔ ان کے بچے سارا دن گلیوں میں آوارہ گردی کرتے‘ گا¶ں سے دو میل دور نہر پر نہانے جاتے۔ تن تنہا کھیتوں میں کام کرتے‘ جانوروں کے لئے چارہ کاٹتے ان کا دودھ دوہتے‘ اپنے درختوں کی دیکھ بھال کرتے‘ پیپل اور بڑ کے قدیم ترین درختوں پر چڑھ کر پرندوں کے گھونسلے تلاش کرتے‘ پھلوں کے موسم میں پھل چنتے‘ انہیں منڈی لے جا کر بیچتے‘ فصل کی برداشت کے موسم میں گرمی سردی کی پرواہ کئے بغیر کام میں جُتے رہتے۔ انہیں کہیں بھوت پریت نظر نہ آتا۔ ان کے والدین اور انہیں کسی چیز کے گرنے کی آواز ہی بھوت لگی اور وہ بھی سکول کے سٹور روم میں شاید کسی ٹوٹی ہوئی کرسی کے گرنے کی ہی تھی۔
ادھر استانی صاحبہ پہلے ہی آنے جانے سے تنگ تھیں اور کہیں اور تبادلے کی درخواست دے رکھی تھی۔ گرمی کی چھٹیوں میں ان کا تبادلہ ہو گیا۔ چھٹیاں ختم ہوئیں۔ استانی صاحبہ نہ آئیں جو بچے پہلے سکول آتے تھے ان کے لئے بھی سکول اجنبی ہو گیا۔ استانی صاحبہ کا کام بھوت کے خوف نے آسان کیا اور تبادلے نے تو گویا ان کی زندگی کو ہی آسان بنا دیا۔ دوسرے کلاس روم کو بھی تالا لگا دیا گیا۔ وہ سکول آسیب زدہ تو پہلے ہی قرار پا چکا تھا اب وہاں آسیبوں کو رہائش کی پکی آزادی مل گئی۔
مت آنا.... ادھر بھوت ہے....
Sep 02, 2016