علامہ منیر احمد یوسفی
حج ِ بیت اللہ
رَمی جمرہ¿ عقبہ سے فارغ ہو کر منیٰ میں قربانی کی جاتی ہے
وقوفِ مزدلفہ سے فارغ ہو کر منیٰ روانگی ہوگی جہاںپہلے جمرہ¿ عقبہ(بڑے شیطان) کو سات کنکریاں ماری جائیں گی
وقوف کا وقت زوال کے وقت کے ختم ہونے کے بعد شروع ہو جاتا ہے اور ۰۱ ذی الحجہ کی صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے۔ ممکن ہو تو زوال سے پہلے غُسل کریںمگر بدن پر صابن نہ ملیں اور نہ میل اُتاریں۔ حالتِ اِحرام میں اِس کی ممانعت ہے ۔زوال کے بعد وقتِ ظہر میں ظہر کی سُنّتیں پڑھی جاتی ہیں پھر خطبہ حج سن کرنماز ظہر کے سلام پھیرتے ہی نماز عصر کی تکبیر پڑھی جاتی ہے اور نمازِ عصر اَدا کی جاتی ہے۔ میدانِ عرفات میں مسجد نمرہ میں ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر پڑھنے کی شرائط درج ذیل ہیں۔ (۱) ۹ ذی الحجہ ہونا‘( ۲) حدودِ عرفات ہونا‘( ۳) حج کا اِحرام ہونا‘ (۴) جماعت کے ساتھ ہونا‘( ۵) مقیم اِمام کا قصر نہ کرنا۔چونکہ ہر کوئی مسجد نمرہ میں باجماعت نماز نہیں پڑھ سکتا‘ اِس لئے خیموں میں ظہر اور عصر کی نمازمقررہ اوقات میں پڑھی جائے۔
میدانِ عرفات قبولیّت ِدُعا کا مقام ہے۔اِرشادِ ربانی ہے: ” عرفات سے واپس آو¿ تو مزدلفہ کے نزدیک اﷲکا ذکر کرو اور اُسے اِیسے یاد کرو جیسے اُس نے تمہیں بتایا ہے“۔ (البقرة: ۸۹۱)۔۹ ذی الحجہ ہی کو میدانِ عرفات سے سورج کے غروب ہوتے ہی مزدلفہ روانگی لازمی ہے۔ آج مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاءکی نمازیں ایک اَذان اور ایک اِقامت سے پڑھیں۔ اور عرفات سے مزدلفہ جاتے ہوئے راستے میں بھی مغرب نہ پڑھی جائے۔بلکہ سنتیں بھی دونوں نمازیں پڑھنے اور عشاءکے وِتر کے بعد پڑھیں۔ مزدلفہ میں رات گزارنا سُنّتِ مو¿کّدہ ہے۔ مگر اُس کا وقوف واجب ہے۔ وُقوفِ مزدلفہ کا وقت ۰۱ ذی الحجہ کا پہلا واجب ہے اِس وُقوف کا وقت‘ بعد از نماز فجر‘ طلوعِ آفتاب تک ہے‘ اِس کے درمیان کچھ لمحات کے لئے بھی وقوف کر لیا تو واجب اَدا ہوگیا۔ آج فجر کی نماز وقت ِاوّل میں اَدا کرنا اَفضل ہے۔ ”مزدلفہ سے سورج کے نکلنے سے پہلے منیٰ کی طرف واپسی کے لئے نکلنا سُنّت ہے“۔ (بخاری جلد ۱ ص ۸۲۲)
وادی محشر کے سوا مزدلفہ کے سارے میدان میں جہاں جگہ ملے وقوف کریں۔ وادی محشر جسے وادی نار بھی کہتے ہیں یہاں وُقوف مزدلفہ جائز نہیں اِس جگہ کو نشان لگا کر واضح کردیا گیا ہے تاکہ کوئی شخص وہاں بھول کر وقوف نہ کر لے۔یہاں اَصحابِ فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔ یہاں ٹھہرنامنع، اور جلد گزرنے کا حکم ہے ۔(۲) اگر کسی نے فجر کی نماز میں ہی وقوف کی نیّت کر لی یا راستہ چلتے چلتے ہی وقوف کی نیّت کر لی اور تسبیح و تہلیل و تکبیر و تلبیہ کہہ لیا تب بھی یہ واجب اَدا ہوجائے گا۔وقوف مزدلفہ کے بعدمنیٰ روانگی ہوگی ۔ اِس دن رَمی کا مسنون وقت طلوعِ آفتاب سے لے کر زوال تک ہے لیکن شام تک مار سکتے ہیں۔رَمی‘ انگوٹھے اورکلمہ شہادت کی اُنگلی سے (کنکری) پکڑ نے کو کہتے ہےں۔ یہاںپہلے جمرہ¿ عقبہ(بڑے شیطان) کو سات کنکریاں ماری جائیں گی۔ کنکریاں مارنے سے پہلے تلبیہ پڑھنا بند کر دیں۔ ساتوں کنکریاں ایک ایک کرکے مارنا ہوں گی۔ اس کیلئے اِیسے کھڑے ہوں کہ دائیں منیٰ ہو اور بائیں جانب مکہ اور سامنے جمرہ عقبہ ہو۔ تمام کنکریاں شیطان کو لگیں ۔پہلے دن جمرئہ عقبہ کو رَمی کا وقت مَردوں کے لئے زوال تک ہے۔ مگر زوال سے غروب تک بھی جائز ہے۔ عورتوں اور بیماروں کے لئے غروبِ آفتاب کے بعد بھی رَمی جائز ہے ۔ بلاعذر شرعی کسی کو اپنا نائب بنا کر رَمی کروانا جائز نہیں۔ شدید بیماری‘ بہت زیادہ کمزوری و بڑھاپا یا اَیسی بیماری جس میں نقصان کا اندیشہ ہو تو دوسرے کو نائب بنا کر رَمی کروانا جائز ہے۔ نائب کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ پہلے اپنی رَمی کرکے دوسرے کی رَمی کرے ۔رَمی واجب ہے ترک کرنے پر دَم بھی واجب ہے۔رَمی سے فارغ ہو کر منیٰ میں قربانی کی جاتی ہے۔ یہ بقر عید والی قربانی نہیں بلکہ یہ حج کے شکرانہ کی قربانی ہے جو حج قِران اور حج تمتع کرنے والے پر واجب اور حج اِفراد والے کے لئے مسنون و مستحب ہے۔ حج قِران اور حج تمتع والے جب تک قربانی نہ کرلیں‘ حلق یا قصر نہیں کروا سکتے قربانی سے پہلے اَیسا کریں گے تو دَم واجب ہو گا۔ اِس قربانی کے وہی اَحکام ہیں جو عید کی قربانی کے ہیں۔
اگر کوئی حج قِران اور حج تمتع کرنے والا (قارِن اور متمتع) قربانی کی اِستطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ بدلہ میں دس روزے رکھے لیکن یہ شرط لازم ہے کہ تین روزے ۹ ذی الحجہ سے پہلے پہلے رکھ لئے جائیں اور باقی سات روزے اَیّامِ حج کے بعد رکھے جائیں۔ ورنہ قربانی کرنا ہی واجب ہے۔قربانی کے بعد مرد حاجی پورے سر کے بال منڈوائیں یا کم از کم سارے سر کے چوتھی بال اُنگلی کے پورے جتنے کتروائیں۔
حلق یا قصر سے پہلے نہ تو ناخن کاٹیں اور نہ ہی خط بنوائیںورنہ کَفّارہ لازم ہوگا۔ حلق و قصر کے بعد اِحرام کھول دیں اور روزمرہ کا لباس پہن لیں۔عورتیں سر کے بالوں میں سے ہر بال اُنگلی کے پورے کے برابر شوہر یا مَحرَم سے کٹوائیں یا خود کاٹیں۔
قرآنِ پاک میں اِرشاد ہے: ” پھر(قربانی کے بعد حلق و قصر کریں اور) اپنا میل کچیل اُتاریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اِس آزاد گھر کا طواف کریں“۔ (الحج: ۹۲)طوافِ زیارت اپنے روز مرہ کے کپڑوں میں کیا جاتا ہے۔ طوافِ زیارت سے پہلے اِحرام کی ساری پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں مگر حقوق زوجیت کی اَدائیگی کی پابندیاں طوافِ زیارت کے بعد ختم ہوتی ہیں۔
طوافِ زیارت ۲۱ ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہونے سے پہلے پہلے کر لیا جائے تو بھی جائز ہے۔ بارہویں تاریخ گزر گئی اور طوافِ زیارت نہیں کیا تو تاخیر کی و جہ سے دَم دینا واجب ہوگا ۔مگر یہ طواف کسی حال میں بھی ساقط نہیں ہوتا ۔ جب تک اِس کو اَدا نہیں کیا جائے گا‘ بیوی سے متعلق پابندیاں برقرار رہیں گی۔
حیض و نفاس کی حالت عورتوں کا مسجد میں جانا اور طواف کرنا منع ہے۔ جو عورت دس سے بارہ تاریخ تک مذکورہ عذر کی و جہ سے طوافِ زیارت نہ کر سکے وہ پاکی کے بعد طوافِ زیارت کرے اس کے بغیر ھج مکمل نہیں۔ اگر وطن واپس آجائے تو پھر بھی اُس کے ذمہ یہ طواف فرض ہی رہے گا۔ بلکہ عمر بھر اُس کی اَدائیگی کا فریضہ بدستور باقی رہتا ہے اور میاں بیوی والا تعلق بھی معلق رہتا ہے۔
طوافِ زیارت کے بعد دو رکعت نماز واجب الطواف حسبِ دستور اَدا کریں۔ اور آبِ زم زم خوب پیٹ بھر کر پئیں۔حج تمتُّع میں طوافِ زیارت کے بعد صفا اور مروہ کی سعی واجب ہے۔ اَل±حَم±دُ لِلّٰہِ حج کے تینوں فرائض اَدا ہوگئے۔ طوافِ زیارت اورسعی کے بعد دو راتیں اور دو دن منیٰ میں قیام کرنا ہے۔اگر ۰۱ ذی الحجہ کو قربانی اور طوافِ زیارت نہیں کیا جا سکا تو ۱۱ ذی الحجہ کو کیا جا سکتا ہے۔
آج کے دن تینوں جمرات(شیطانوں) کو کنکریاں مارنا ہے۔ ۱۱ ذی الحجہ کو رمی کا وقت مَردوں کے لئے زوالِ آفتاب کے بعد سے غروبِ آفتاب تک ہے۔ترتیب پہلے جمرہ¿ اولیٰ( چھوٹا شیطان) پھر جمرہ¿ وسطیٰ (درمیانہ شیطان) اور پھر آخر میں جمرہ¿ عقبہ (بڑا شیطان)۔”جمرہ اولیٰ کو سات کنکریاں مار کر ذرا آگے بڑھیں اور قبلہ رو کھڑے ہو کر دُعائیں کریں‘کثرت سے اِستغفار اور دُرود شریف پڑھیں“۔اِس کے بعد جمرہ¿ وسطیٰ کو کنکریاں ماریں اور دُعا کریں پھر جمرہ¿ عقبہ کو کنکریاں مارکر بغیر دُعا کئے واپس اپنے خیمے میں چلے جائیںکیونکہ رسول اللہنے اَیسے ہی کیا تھا۔جو لوگ قربانی ۰۱ اور ۱۱ ذی الحجہ کو نہیں دے سکے وہ آج یعنی۲۱ ذی الحجہ کے دن قربانی کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد ٹنڈ کروا کر طواف زیارت کے لئے جائیں۔آج کا مخصوص کام ۱۱ ذی الحجہ کی طرح تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا ہے۔
اگر بارہویں ذی الحجہ کو سورج منیٰ کے قیام کے دوران ہی غروب ہوگیا تو اَب تیرہویں ذی الحجہ کو رَمی کرکے مکہ مکرمہ جائیں اگر تیرہویں ذی الحجہ کو رَمی نہ کی تو دَم واجب ہو جائے گا۔ تیرہویں ذی الحجہ کو بھی رَمی زوال کا وقت گزرنے کے بعد ہے۔میقات سے باہر کے رہنے والے لوگوں پر واجب ہے کہ جب مکہ مکرمہ سے رخصت ہونے لگیں تو رخصتی طواف کریں۔ یہ حج کا آخری واجب ہے۔ حج قِران ہو یا تمتع یا اِفراد ہو ہر صورت میں طوافِ وداع واجب ہے ورنہ رہ جانے پر دَم واجب ہوتا ہے۔ طواف ِزیارت کے بعد نفلی طواف کرنے سے بھی طوافِ وداع اَدا ہو جاتا ہے۔ طوافِ زیارت کے بعد اِس کا وقت شروع ہوتا ہے ۔ جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم ہیں یہ طواف کر سکتے ہیں۔ اِس طواف میں نہ رَمَل± ہے نہ اِضطباع۔ طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھیں اور آبِ زم زم پئیں اور دُعا کریں۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میدانِ عرفات قبولیّت ِدُعا کا مقام ہے
Sep 02, 2016