مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمان مسلسل بھارتی فوج کے جبر و استبداد کا شکار ہیں۔ 1947ء سے آج تک نہ انکے جذبہ حریّت میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی بھارت کے جبر میں۔ نتیجتاً آج بھارت کی ساڑھے سات لاکھ فوج انہیں کچلتے کچلتے بے بس نظر آتی ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں، کہیں بھی اتنے چھوٹے علاقے اور صرف پچاس لاکھ آبادی کو محکوم رکھنے کیلئے اتنی بڑی سپاہ تعینات نہیں کی گئی۔ اوائل میں ہی پاکستان کے ساتھ 14ماہ کی جنگ لڑی گئی اور شکست کے خوف سے بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہرلال نہرو خود کشمیر کا کیس اقوام متحدہ میں لیکر گئے۔ پھر اقوامِ متحدہ کی قرار داد کیمطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ بھی کر لیا مگر کسی نہ کسی بہانے سے عمل درآمد نہ کیا گیا۔ یہ دنیا پر واضح ہے کہ پاکستانیوں کے دل کشمیر یوں کیساتھ دھڑکتے ہیں۔ اور ہماری بھارت کیساتھ دشمنی اور جنگوں کی بنیادی وجہ بھی کشمیر کیلئے بہتر مستقبل کے حصول کی کوشش ہے۔پھر بھی لاکھوں کشمیریوں کی شہادتوں اور غیر انسانی سلوک پر اقوامِ عالم تماشائی بن کر ہمارے موقف کی تائید سے گریزاں ہیں بلکہ حقیقتاً بڑی طاقتوں کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے۔ بھارت چانکیہ کے قول پر ثابت قدم رہا کہ ’’جھوٹ بار بار بولو اور اتنی بار بولو کہ وہ سچ نظر آنے لگے‘‘۔جبکہ ہم سچ کو بھی اتنی بار دنیا کے کانوں میں نہ ڈال سکے کہ کشمیریوں کی دلدوز چیخیںانہیں سنائی دیتیں۔
قومیں اپنے کسی بھی موقف پر دنیا کو قائل کرنے کیلئے لمبی مدت کی حکمت عملی تیار کرتی ہیں۔ پھر اسکے مطابق کم مدت کے اہداف وضع کرکے دوسری قوموں کیلئے اس میں دلچسپی کا سامان پیدا کرتی ہیں۔ تب جا کر وہ ماحول بنتا ہے جس میں کوئی اور بھی آپ کیلئے بول رہا ہوتا ہے۔ ہم نے امریکہ کیلئے افغانستان میں دو جنگیں لڑیں مگر فائدہ بھارت اٹھاتا رہا اور آج پھر وہ اپنے ریجن میں بالا دستی کے ٹوٹتے خوابوں کو بچانے کیلئے امریکہ کو سامنے لے آیا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ کشمیر پر قبضہ اور پاکستان کو کمزور کرنا اس کا پہلا ہدف ہوگا۔اپنی سالمیت، ترقی، دنیا میں جائز مقام اور کشمیر کی آزادی کیلئے ہمیں مضبوط سفارتکاری کی ضرورت ہے۔ یہ سفارتکاری یا لابنگ ہر شعبے میں ہر جگہ کی جانی چاہیے۔ کشمیر کا زپر پہلے قدم کے طور پر 22 پارلیمینٹرین کو 10ملکوں میں خصوصی ایلچی کے طور پر یہ فریضہ ادا کرنا ہے۔بنیادی مقصد بھارت کے مقبوضہ علاقے میں کشمیریوں پر وحشیانہ مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی دنیا کے کلیدی حصّوں میں جاکر اجاگر کرنا ہے۔ وزیراعظم کے بقول عالمی ضمیر کو جھنجوڑنا ہے تاکہ جب وزیراعظم اسی ماہ اقوامِ متحدہ میں یہ مسئلہ اٹھائیں تو ماحول قدرے موافق ہو۔ پالیسی تو قابل تعریف ہے مگر ہم اکثر اچھی پالیسیوں کو خراب عملی جامہ پہنانے کے ماہر ہیں لہٰذا کچھ خدشات اور گذارشات قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
1۔ جب ہم گھر سے اہداف کا اعلان کرکے چلتے ہیں تو دنیا ہماری حرکات و سکنات پر زیادہ نظر رکھتی ہے۔ سر فہرست ہماری مقصد سے سنجیدگی ، مسلئے کی باریکیوں تک گرفت اور کاز سے عقیدت کو پرکھا جاتا ہے۔مقصد سے سنجیدگی کا مظاہرہ تو اسطرح ہوتا ہے کہ ایلچی بیرونِ ملک جاکر نہ کسی اور چیز میں دلچسپی لیتا ہو، نہ بات کرتا ہو۔ مسلئے پر گرفت اُسے محنت سے سمجھنے اور ہوم ورک کرنے سے آتی ہے۔ جبکہ عقیدت اپنے قومی موقف پربولتے وقت باڈی لینگوئج سے نمایاں ہوتی ہے۔ امید ہے کہ دفتر خارجہ مکمل تیاری کرواے گااور معزز ممبران دیار غیر میںاپنے قول وفعل سے کامیابی حاصل کرسکیں گے۔
2۔ ایلچیوں کو اسطرح بھیجا جا رہا ہے کہ بلجیئم (برسلز)میں اعجاز الحق اور ملک عزیز۔ چین میں خسرو بختیار اور عالم لالیکا۔ فرانس (پیرس) میں عائشہ رضا فاروق اور محمد افضل خان۔ روس (ماسکو) میں رضا حیات ہراج، جنید انوراور نواب علی و سان۔ سعودی عرب میں مولانا فضل الرحمٰن ، میجر (ر) طاہر اقبال اور محمد افضل کھوکھر۔ ترکی میں محسن شاہ نواز رانجھا اور ملک پرویز۔ برطانیہ میں جنرل (ر) عبدالقیوم اور قیصر شیخ۔امریکہ میں مشاہد حسین سید اور شذرہ منصب علی۔ UNO جنیوا میں اویس لغاری اور جنوبی افریقہ میں عبدالرحمٰن کانجو۔ تمام معزز ممبرانِ پارلیمنٹ ہیں۔ تاہم کچھ نقاط پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔
ا۔میری نظر میں چین، سعودی عرب، ترکی اور برطانیہ میں وفود بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ ہمارا دفتر خارجہ چین، سعودی عرب اور ترکی سے معاملات شیئر کرنے میں بہت قریب ہے۔ جہاں تک برطانیہ کا تعلق ہے وہاں کشمیر ی اور انکی تنظیمیںجسقدر فعال ہیں ان سے زیادہ ہمارے ایلچی کسی کو کیا جھنجوڑیں گے۔
ب۔یہ واضح ہونا چاہیے کہ انہیں بیرونِ ملک جاکر پارلیمنٹ سے خطاب کرنا ہے، پارلیمانی کمیٹیوں پر اثر انداز ہونا ہے یا عوام کو متحرک کرنا ہے۔ اسکے مطابق ہی تاثرپیدا کرنیوالی شخصیتوں کو چنا جانا چاہیے۔
ج۔ملکوں کے انتخاب میں UNOکی سلامتی کونسل (UNSC)میں بیٹھنے والے ممالک کو ترجیحاً ملنا چاہیے تھا۔ مثلاً جاپان، مصر، سینیگال، یوکرائن اور یورا گوئے نے تو 31دسمبر 2017ء تک UNSCکا ممبر رہنا ہے۔ مگر ادھر ہمارے ایلچی نہیں جارہے۔
د۔وہ ملک جن سے تعلقات تو ہیں مگر بہتر کرنے چاہیں ،انہیں اعتماد میں لینا چاہیے۔ جیسے ایران، آسٹریلیا، سیکنڈ نیوژن ممالک۔اورپھر وہ ممالک جہاں پر برف پگھلانی مقصود ہو۔ جو ’’میں منکروں کی زمین پر اذان دے آیا‘‘کے مصداق ہو۔
3۔ دفتر خارجہ کی طرف سے وفود کومتعلقہ ملک کے حالات اور ہمارے ساتھ تعلقات کے مطابق ایک تفصیلی سوالنامہ دیا جائے جوPromptکرے کہ ہمیںان سے کیا کروانا ہے۔ ممبر حضرات اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہا ں پر اپنا کام کریں اور واپسی پر جامع رپورٹ وزارتِ خارجہ کے پاس جمع کروائیں ۔ کشمیر کمیٹی تمام رپورٹس کو یکجا کرکے وزیراعظم، دفتر خارجہ اور کسی حد تک پریس کو بریفنگ دے۔
69سال گذرنے کے سبب کشمیر کا مسئلہ دنیا کیلئے ایک عمومی سا معاملہ بن چکا ہے جسے ہم نے ہی اجاگر کرتے رہنا ہے۔ اگر انڈیا اور امریکہ کے موجودہ رومانس اور بیانات کو سمجھ لیا جائے تو ہمارے لئے اب کسی سُستی کی گنجائش ہی نہیں۔ چائنا کے اس ریجن میں آنے کے بعد انڈیا فرسٹریشن کا شکار ہے۔ امریکہ اسکے ساتھ کھڑا ہے مگر وہ کسی جنگ میں نہیں کودیگا۔ البتہ انڈیا کی Mischief Capacityقائم ہے جس کے ذریعے وہ ہم پر زیادہ سے زیادہ زخم لگانے کی کوشش کریگا۔ دنیا کو یہ نظر کیوں نہیں آتا کہ اس خطے میں سات سمندر پار سے 44ملک آکر دہشت گردی کیخلاف سالہاسال لڑے مگر انڈیا فارغ اور بے فکر رہا۔وجہ یہی ہے کہ وہ دہشتگردوں کا ساتھی ہے۔ اب اس نے پٹھانکوٹ وغیرہ جیسے ڈراموں سے پاکستان کو دہشت گرد ملک ڈکلیئر کروانے کی مہم چلا رکھی ہے جس کی سپورٹ امریکہ کر رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے ایک دوسرے کے ہوائی اڈے وغیرہ استعمال کرنے کے معاہدے اور دہشتگردی کے متعلق معلومات شیئر کرنے کے اعلانات سے ہمیںڈرنے کی ضرورت تو نہیں،البتہ اگلے چند سال محتاط رہنے اور انڈیا کے کسی بھی ایکشن کیخلاف ردِ عمل کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ انسانیت ، اخلاقیات اور جمہوریت کا پرچار کرنیوالی ’’مہذب‘‘دنیا کو کشمیریوں پر ڈھائے گئے مظالم اور موجودہ نسل کا عزم از خود نظر نہیں آئینگے۔ اگر ہم ایمانداری سے اندرونی یکجہتی اور جارحانہ سفارتکاری سے بین الاقوامی تعاون بہتر کرلیں تو، ہندوستان کے اندر کے حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں، کشمیر کی آزادی زیادہ دور نہیں ہو گی۔
’’کشمیر کاز کیلئے پارلیمانی ایلچی‘‘
Sep 02, 2016