ہم فروعی اختلافات اور فرقہ بندیوں کا شکار نہ ہوں تو کوئی الحادی قوت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی

خطبہ حج میں سعودی عالم دین کا مسلم امہ کیلئے اتحاد و یکجہتی اور شریعت کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا پیغام


سعودی عرب کے عالم دین ڈاکٹر شیخ سعد بن ناصرالشتری نے مسجد نمرہ میں خطبہ¿ حج دیتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ مسلمان چاہے کسی بھی ملک‘ رنگ اور نسل سے تعلق رکھتا ہو‘ وہ پرامن رہتا ہے اور کسی کے ساتھ بھی ظلم اور زیادتی نہیں کرتا‘ اسلام میں زیادتی کی ممانعت ہے چاہے وہ مسلم کے ساتھ کی جائے یا غیرمسلم کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعلیمات نے دنیا بھر کے انسانوں میں بھائی چارہ پیدا کیا‘ اسلام امن کا مذہب ہے اور اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ ایمان لانے اور نیک اعمال کرنیوالوں کو زمین پر طاقت عطاءہوگی۔ انہوں نے کہا کہ تمام مسلم حکمران اللہ کا قرب حاصل کریں‘ وہ اللہ سے دعاگو ہیں کہ مسلمانوں کو ان کا پہلا قبلہ بیت المقدس واپس مل جائے‘ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ان حدود کی حفاظت کرے جو اللہ نے ان کیلئے کھینچ دی ہیں۔ اسلامی تعلیمات امن اور بھائی چارے کا حکم دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حج مقدس عبادت ہے‘ یہ سیاست کا میدان نہیں۔ حج کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا اور مفادات کے حصول کا اکھاڑا بنانا جاہلیت کی وہ رسوم و رواج ہیں جنہیں اسلام مٹانے کیلئے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام شدت پسند جماعتوں کا مخالف ہے۔ اسلام میں غیرمسلم کا خون بہانا بھی جرم ہے۔ امت سیاست کی بنیاد پر تقسیم ہونے سے بچے اور مسلم حکمران قرآن کےمطابق حکمرانی کریں۔ ہم پر لازم ہے کہ شریعت کے احکام پر پوری طرح سے عمل پیرا ہوں اور ہر قسم کے تعصب سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حج کو گروہ بندی اور تفرقہ بازی کے علاوہ تحریکی نظریات و افکار کیلئے استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ انسان کا خون محترم ہو‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دوسرے کی گردن مارنے سے منع کیا ہے‘ اسلام دہشت گردی اور شدت پسند جماعتوں کو پسند نہیں کرتا اور انکی بیخ کنی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام معاشرے کی اصلاح کیلئے زریں اصول وضع کرچکا ہے جنہیں اختیار کرنے سے معاشرے نہ صرف پاک صاف رہیں گے بلکہ دیگر امتوں کا مقابلہ بھی کرسکیں گے۔
ڈاکٹر شیخ سعد بن ناصرالشتری نے جو سعودی کونسل آف سینئر سکالرز کے رکن اور سعودی رائل کورٹ کے مشیر بھی ہیں‘ اپنے خطبہ¿ حج میں ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ وہ اسلام کی ترویج و ترقی کیلئے کام کریں اور قرآن کی تعلیم کو عام کریں تاکہ لوگ اسلام کے قریب ہوں۔ قبل ازیں خطبہ¿ حج کی ذمہ داری مفتی اعظم سعودی عرب یا امام کعبہ ادا کیا کرتے تھے تاہم گزشتہ سال سے یہ روایت تبدیل ہوئی ہے اور اب سعودی عرب کے جیدعالم دین کو یہ ذمہ داری سونپی جارہی ہے۔ فریضہ¿ حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شامل ہے جس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ درحقیقت فریضہ¿ حج نے ہی دین اسلام کو تمام ادیان سے ممتاز بنایا ہے کہ اس فریضہ کی ادائیگی کیلئے دنیا بھر سے لاکھوں فرزندان توحید میدان عرفات میں جمع ہو کر اسلام کے دین برحق ہونے کی گواہی دیتے ہیں اور اتحاد و یکجہتی ¿ ملت کا بے مثال عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ سنت ابراہیمی پر عمل پیرا فرزندان توحید ارکان حج ادا کرتے ہوئے علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر بنے نظر آتے ہیں کہ....
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
رواں سال دنیا بھر سے آئے ہوئے 20 لاکھ سے زائد فرزندان توحید نے حج کی سعادت حاصل کی جو عرفات کے ایک ہی میدان میں اسلام کے ایک ہی پرچم تلے جمع ہو کر ذات باری تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی و اعتراف کا عملی مظاہرہ اور اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے قالب میں ڈھالنے کا عہد مشترکہ ہے۔ کسی دوسرے مذہب میں اتحاد و یکجہتی کی ایسی فضا کبھی قائم ہوئی ہے نہ نظر آتی ہے چنانچہ الحادی طاغوتی قوتوں کو یہی خوف و دھڑکا لاحق رہتا ہے کہ مسلم امہ میں فریضہ¿ حج کی ادائیگی کے موقع پر میدان عرفات میں بلاامتیاز رنگ و نسل ایک دوسرے کے پاﺅں سے پاﺅں ملا کر اور ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس کرتے ہوئے جس اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے‘ اگر انہوں نے اپنے معمولات زندگی میں بھی اسی اتحاد و یکجہتی کو شعار بنالیا تو امتِ واحدہ کی صورت میں متحد ہوئی اس قوم کو کسی بھی دنیاوی طاقت کے ذریعے شکست دینا ناممکن ہو جائیگا۔ اگر آج یہ امتِ واحدہ طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں منتشر ہو کر مغلوب ہوئی ہے تو اس میں ہمارا اپنا ہی قصور ہے کہ ہم نے اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے کا چلن ہی اختیار نہیں کیا اور فرقہ بندیوں میں بٹ کر اور فروعی اختلافات کو ہوا دے کر ہم نے اتحاد ملت کی فضا مستحکم ہی نہیں ہونے دی۔ چنانچہ امتِ واحدہ کے اتحاد سے خوفزدہ لادین و ملحد عناصر نے ہنود و یہود کی صورت میں باہم متحد ہو کر مسلم امہ میں درآنے والی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس میں موجود فرقہ ورانہ تعصبات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا۔ ہماری یہی کمزوریاں ہیں جن کے باعث آج مسلمان دہشت گردی کے لیبل کی زد میں آکر دنیا بھر میں مشکوک ٹھہرائے جارہے ہیں اور انہیں منتشر کرکے کمزور کرنے کی ہنودو یہود و نصاریٰ کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔
مسلم امہ کیلئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ قدرت کی طرف سے ودیعت کئے گئے تمام وسائل اور ایک کلمہ کی بنیاد پر حق کیلئے اکٹھے ہونے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود ہم فرقوں‘ گروہوں میں بٹ کر اور فروعی اختلافات کا شکار ہو کر الحادی قوتوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں اور آج ٹرمپ‘ مودی‘ نیتن یاہو کی شکل میں ہنود و یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ مسلم امہ کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کے درپے نظر آتا ہے۔ ہم صحیح معنوں میں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں‘ جس کا درس گزشتہ روز ڈاکٹر شیخ سعدبن ناصر نے اپنے خطبہ¿ حج میں دیا ہے‘ تو ہمارے ہاتھوں مسلمان تو کجا‘ کسی بھی بے گناہ انسان کا خونِ ناحق بہنے کا سوال ہی کیوں پیدا ہو۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک انسان کا قتل بلاشبہ پوری انسانیت کا قتل ہے اس لئے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا کوئی مسلمان کسی انسان کا خون بہانے کا بھلا کیسے روادار ہو سکتا ہے۔ گزشتہ روز کے خطبہ¿ حج میں بھی یہی تلقین کی گئی ہے کہ اسلام میں شدت پسندی اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہم فریضہ حج کی ادائیگی اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہوئے بلاامتیاز رنگ و نسل اور فرقہ بندیوں سے بالاتر ہو کر خود کو اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروتے ہوئے خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور روضہ¿ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اتحاد و یکجہتی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تو ہم اس سلیقے اور ڈسپلن کو اپنے معمولات زندگی کا حصہ کیوں نہیں بنا پاتے۔ آج امتِ واحدہ اپنے اندرونی انتشار اور کمزوریوں کے باعث جس ابتلا کا شکار ہے وہ ہم سے مثالی اتحادِ امت ہی کی متقاضی ہے۔ اگر آج فریضہ¿ حج اور سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے موقع پر بھی روہنگیا مسلمانوں پر بدھ پرستوں کے ہاتھوں قیامت صغریٰ ٹوٹی ہوئی ہے جنہیں اپنی شناخت کیلئے اپنی ریاست کے تقاضے پر گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے اور انکے معاملات پر اقوام عالم تو کجا‘ مسلم معاشروں میں بھی بے حسی کی کیفیت طاری ہے اور اسی طرح فلسطینی عوام قبلہ¿ اول کی واگزاری تو کجا‘ اپنی خودمختار ریاست کو تسلیم کرانے کیلئے بھی جاں گسل مراحل سے گزر رہے ہیں اور ٹرمپ‘ یاہو اتحاد مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونی بستیاں بسانے اور بڑھانے کی سازشوں میں کامیاب ہو رہا ہے اور پھر کشمیری عوام گزشتہ 70 سال سے جاری اپنی جدوجہد آزادی میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے کے باوجود آج ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کی حقارت آمیز توسیع پسندانہ سازشوں کی زد میں ہیں جن کی آواز دبانے کیلئے مودی سرکار کی جانب سے ظلم کا ہر حربہ آزمایا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی مملکت پاکستان کی سلامتی کو تاراج کرنے کی گھناﺅنی منصوبہ بندیاں بھی ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کی صورت میں سامنے آرہی ہیں تو خطبہ¿ حج کی روشنی میں بطور امتِ واحدہ ہمیں اپنے اعمال کا بھی ضرور جائزہ لینا چاہیے۔ اگر گزشتہ روز فریضہ حج کی ادائیگی کے موقع پر خطبہ¿ حج کے ذریعے فرزندان توحید کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے انسانی سمندر کی جانب سے محمد عربی اور ان پر نازل ہونیوالے آفاقی اور برحق دین اسلام پر جانیں نچھاور کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے اور اس عظیم مقصدِ حیات کے تحت مسلم امہ کے اخوت و بھائی چارے اور اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروئے ہونے کا پیغام ملا ہے تو پھر فرقوں اور گروہوں میں بٹی یہ امتِ واحدہ طاغوتی قوتوں کے آگے بے بس کیوں ہے۔ ہماری ارض وطن آج بھی اسلام کے نام پر دہشت گردوں کے ہاتھوں انسانی خون سے سرخ کیوں نظر آرہی ہے۔ آج بھی محض فرقہ بندیوں اور فروعی اختلافات کی بنیاد پر برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ ایران‘ قطر و یمن ایک دوسرے کیخلاف کیوں صف آراءہیں اور انتشار امت کی کیوں عکاسی کررہے ہیں۔ ہمارے پاس قرآن مجید کی شکل میں ایک مکمل ضابطہ¿ حیات موجود ہے تو ہم خود کو اس ضابطہ¿ حیات میں ڈھالنے میں اب تک کیوں ناکام ہیں۔
ہمیں خطبہ¿ حج کی روشنی میں آج بحیثیت قوم سوچنا چاہیے کہ رحمت للعالمین بنا کر بھیجے گئے نبی ¿ آخری الزمان کے دین کا اقوام عالم اور دیگر مذاہب میں تشخص خراب کرنے میں کہیں ہماری اپنی بداعمالیوں کا تو عمل دخل نہیں۔ اگر فرقوں میں بٹے مسلمان فروعی اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہوں اور اپنی انتہاءپسندانہ سوچ کو دین اسلام کے ساتھ منسلک کرکے مساجد کو نمازیوں سمیت بم دھماکوں سے اڑا رہے ہوں‘ درگاہوں‘ خانقاہوں اور مدارس میں بھی دھماکے کرکے اپنی جنونیت دکھا رہے ہوں‘ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو بھی اپنی انتہاءپسندانہ سوچ کی بھینٹ چڑھا رہے ہوں‘ ملک کی سرحدوں اور امن و امان کی ضامن سکیورٹی فورسز کو ہدف بنا کر اپنے مشن کی کامیابی کا پیغام دے رہے ہوں اور گلیوں‘ بازاروں‘ چوراہوں میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام کرکے انسانی خون کی ارزانی کا ثبوت دے رہے ہوں تو پھر دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کو دین اسلام کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا کرنے کا کیوں موقع نہیں ملے گا۔ گزشتہ روز کے خطبہ¿ حج کے ذریعے بطور امت واحدہ ہمارے لئے یہی پیغام ہے کہ ہم بطور قوم اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروئے جائیں اور اسلامی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہو جائیں تو کوئی طاغوتی طاقت اپنے بے پناہ دنیاوی وسائل کے باوجود ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور شکست و نامرادی ان کا مقدر ہے۔ اس کیلئے اتحاد امت ہی شرط اول ہے۔ آج سنتِ ابراہیمی ادا کرتے ہوئے بھی ہمیں بندگانِ خدا کیلئے ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا اور مسلم برادرہڈ کے جذبے کے تحت بے وسیلہ لوگوں کی خبرگیری کرنا ہوگی۔ بے شک قربانی کا گوشت نہیں‘ ہمارا تقویٰ ہی بارگاہِ ایزدی میں ہمارے شرف باریابی کا باعث بنے گا۔

ای پیپر دی نیشن