اللہ اللہ کر کے ملک میں انتخابی عمل پر سکون طریقے سے مکمل ہوگیا اور پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میںکامیابی حاصل کرلی۔ اب مسند اقتدار پر عمران خان اور ان کے ساتھی بیٹھ چکے ہیں ۔ عمران خان نے انتخابات سے قبل اپنے جو پروگرام کا اعلان کیا تھا اس میں متعدد اور باتوں کے ایک ان میں اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کا اعلان کیا تھا اور اب عمران خان اپنے اہداف کے تعاقب میں تیزی سے چل رہے ہیں ۔ امور خارجہ کے لئے ان کے پاس بہترین تجربہ کار اور بردبار شخصیت شاہ محمود قریشی موجود ہیں جن سے قوی امید ہے کہ ماضی کی غلط پالیسیوں کے باعث پاکستان جو عالمی سطح پر تنہا ہوگیا تھا اب جلد پاکستان عالمی سطح پر اپنا کردار موثر طور پر ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائیگا جبکہ معاشی وا قتصادی معاملات کی بہتری کیلئے اسد عمر جیسی شخصیت موجود ہے جن کی صلاحیتوں کا اعتراف مخالفین بھی کرتے ہیں ۔ اسد عمر کیلئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اربوں ڈالر کے حصول کا ہے جس کیلئے وہ کوشاں ہیں تاکہ ملک کو ایک مناسب معاشی و اقتصادی سطح پر لایا جاسکے ۔ امید تو ہے کہ یہ مرحلہ بھی کسی نہ کسی طرح مکمل مکمل ہوجائے گا ۔ گو کہ عمران خان اور اسد عمر کی کوشش ہے کہ اس سلسلے میں عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنے کی ضرورت نہ پڑے لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ معاشی طور پر سانس لینے کیلئے کسی حد تک عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع کرنا پڑے گا ۔ انشاء اللہ جلد حالات بہتر ہو جائیں گے ۔ حیرت تو ماضی کی حکومت کی کارکردگی پر ہوتی ہے کہ ملک دلدل میں پھنستا چلا گیا اور دونوں پارٹیوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے حکمراں صرف اپنے ذاتی مقاصد کیلئے کوشاں رہے ۔ نواز شریف نے تو اپنے پورے دور میں وزیر خارجہ نہ رکھ کر ملک کی خارجہ پالیسی کا جو حشر کیا ہے ۔ افسوس ہوتا ہے ، نواز شریف نے ملک سے باہر دورے کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ۔ حالانکہ متعدد ممالک ایسے تھے جہاں صرف محکمہ خارجہ کے سیکریٹری موثر طور پر نمائندگی کرسکتے تھے نہ ہی اس قدر اہمت کے دورے ہوتے تھے جن پر ملک کے وزیر اعظم کا جانا بھی معیوب ہی نظر آتا تھا ۔ نواز شریف کو بیرون ملک جا کر گارڈ آف آنر بہت پسند تھا ۔ اگر آپ حقیقت میں جائزہ لیں تو تحریک انصاف اور عمران خان کی اسقدر بھر پور کامیابی میں نواز شریف کی ناقص اور غیر سنجیدہ کارکردگی کا بھی بہت بڑا دخل ہے ۔ خیر اب تو عمران خان گھوڑے پر سوار ہوچکے ہیں اور ہر طرف سے تحسین کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں ، عمران خان نے گو کہ اپنی اضافی کابینہ تو تشکیل دے دی ہے لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اور میڈیا میں ان کی حکومت اور عمران خان کا امیج برقرار رکھنا اس میں سب سے بڑا کردار محکمہ اطلاعات و نشریات اور اس سے ملحقہ اداروں کا ہے جس کی کمان فواد چوہدری کے سپرد ہے وہ تحریک انصاف کی حکومت کا امیج بہتر سے بہتر بنانے کے ذمہ دار ہیں ۔ فواد چوہدری اپوزیشن میں رہتے ہوئے TV چینلز اور اخبارات میں تحریک انصاف کی ترجمانی کے فرائض اداکرتے رہے ہیں ۔ دراصل اپوزیشن میں بیٹھ کر سیاست کرنا بہت آسان ہوتا ہے ۔ کام صرف حکومت پر تنقید کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن اب جو ذمہ داری فواد چوہدری کے کندھوں پر آگئی ہے وہ ان کے سیاسی قدوقامت کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان ضرور ہے اور حال ہی میں جس طرح عمران خان کے اسلام آباد سے بنی گالہ ہیلی کاپٹر کے سفر پر ہونیوالی تنقید کا جواب دیا ہے اس پر ہر جانب فواد چوہدری کا مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف کا جو سنجیدہ طبقہ ہے بھی فواد چوہدری کی اس منطق پر حیران ہے ۔ جہاں تک اطلاعات و نشریات ، اخبارات اور چینلز سے متعلق پالیسی کا تعلق ہے تو فواد چوہدری کو چاہئیے اخبارات چینلز کے گاڈ فادر بننے کی کوشش نہ کریں بلکہ اخبارات و چینلز سے تعلق رکھنے والے صاحب الرائے صحافیوں اور ان اداروں کے مالکان ، APNS ، CPNE ۔اسی طرح عامل صحافیوں کی تمام نمائندہ تنظیموں سے موثر رابطے قائم کریں ان کی تجاویز حاصل کریں ۔ ان کے مسائل اور ڈیمانڈز پر بیٹھ کر بات کریں ۔ اگر فواد چوہدری کی کارکردگی ناقص اور ناکام ہوئی تو عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کو بہت دھچکا لگے گا اس لئے کہ حکومت کے تمام اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے مسلسل ذرائع ابلاغ کو آگاہ رکھنا ان کی ذمہ داری ہے ۔ عمران خان کیلئے تو دعائیں ہیں کہ اللہ انہیں ملک کی بہتری و ترقی کے مشن میں کامیاب کرے ۔ ستربرس کا بگاڑ درست کرنا آسان نہیں ہے ۔