نئی حکومت نے اپنی مدت کا آغاز کردیا ہے لیکن ابتدائی اشارے ایک پُراعتماد آغاز کی نشاندہی نہیں کر رہے۔ ہو سکتا ہے کہ عمران ٹیم کو حالات کا صحیح ادراک نہیں تھا اور آہستہ آہستہ مسائل کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اس دوران ایسی خطائیں سرزد ہو رہی ہیں جن سے بچا جا سکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کو بنے ابھی چند دن ہوئے ہیں اور اتنی مختصر مدت میں کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا جائزہ حقائق سے زیادہ ذاتی احساسات پر مبنی ہوگا۔ کہا جائیگا کہ یہ ٹیسٹ میچ ہو رہا ہے، نہ کہ کوئی ٹی ٹوئنٹی یا چھ اوور والا ہانگ کانگ کا ٹورنامنٹ۔ اس میں رائے قائم کرنے میں عجلت نہیں کرنی چاہیے، ٹیسٹ کے نتیجے کو سامنے آنے تک ہزار داستانیں رقم ہوجاتی ہیں۔ ہم اس بات سے متفق ہیں اور یہ بہت صائب مشورہ ہے لیکن ہم یہ واضح کردیں کہ ہم کسی گہرے اور عمیق تجزئیے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن جو کچھ منظر نظر آ رہا ہے، منتظر آنکھوں کو اسے دیکھنے سے روکا جا سکتا ہے نہ اس پر تبصرے سے منع کیا جا سکتا ہے۔ حکومت عوام کی بے پناہ پذیرائی سے منتخب ہوکر آئی ہے جو فی الحال اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہے لیکن یہ سرمایہ بڑا نازک ہے اور اسے ختم ہونے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگے گا جبکہ اس کو حقیقی اقدامات کے ذریعے ایک پائیدار شکل نہیں دی جاتی۔ اس ضرورت کے برعکس دیکھا جا رہا ہے کہ حکومت کی توانائیاں غیرضروری مسائل میں الجھ کر ضائع ہو رہی ہیں۔ وزیراعظم منتخب ہونے والے دن ایوان میں حزب اختلاف کے غیر اخلاقی روئیے کے ردعمل میں ایک سخت لب و لہجے میں خطاب اور ایک نادر موقع کا ضیاع جس میں اپنے ارادوں اور پروگرام سے متعلق تاریخی کلمات کہے جا سکتے تھے، حلف پڑھنے میں خطائیں، ڈاکٹرعمران علی شاہ کی ایک شہری سے زور آوری، وزیراعظم کی رہائش کے تعین میں بے یقینی، ہیلی کوپٹر کے استعمال کی لاگت، پاک پتن کے پولیس افسر کا تبادلہ، ایک وزیر کی اعلیٰ سرکاری ملازمین سے تلخ کلامی، صوبائی وزیر اطلاعات کا متعدد موقعوں پر معیوب اور قابل اعتراض زبان کا استعمال اور بعد ازاں معافیوں کی درخواست اور پارٹی میں اندرونی خلفشار کا اعلانیہ اظہار یہ سب ایسے واقعات ہیں جن کا حکومت کے اصل ایجنڈے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک عام آدمی جو ٹکٹکی باندھے حالات کے سدھرنے کا انتظار کر رہا ہے اس کیلئے یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں تھا کہ اعلیٰ حکومتی اہلکار پرائم ٹائم ٹی وی پر لگاتار وضاحتیں پیش کر رہے تھے، جو مزید الجھاو¿ پھیلارہی تھیں اور معمولی باتیں غیر ضروری طوالت پکڑ رہی تھیں۔
دوسری جانب حقیقی مسائل کے حل کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات ابھی تک سامنے نہیں آئے ۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ابھی مختلف متبادل راستوں کو پرکھا جا رہا ہے اور اس کے بعد آخری انتخاب کیا جائیگا۔ لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے کہ یہ وقت واقعی متبادل راستوں کی تحقیق پر لگ رہا ہے یا کسی ذہنی خلجان اور تذبذب کا نتیجہ ہے۔ جیسا ہم کہتے چلے آئے ہیں اس وقت ملک کو درپیش چیلنجز میں اولین چیلنج ملک کی معیشت کا ہے جو زبوں حالی کا شکار ہے اور ہر آنے والا دن اس کی بیماری میں اضافہ کررہا ہے کیونکہ بغیر ٹھوس اقدامات کے اس میں کوئی افاقہ ممکن نہیں ہے۔
جولائی کے مہینے کے معاشی نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ بیرونی ادائیگیوں میں دو ارب ڈالر سے زیادہ کا خسارہ ہوا ہے، جو گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں ہونے والے دو ارب اوسط خسارہ سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حال میں جو روپے کی قدر میں کمی کی گئی تھی، تاکہ درمدآت میں کمی واقع ہو، وہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ دوم، افراط زر تیزی سے بڑھ رہا ہے اور آئندہ آنے والے دنوں میں اس میں مزید تیزی آئیگی، کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور ایران پر پابندیوں کے بعد اس میں اور تیزی کا خدشہ ہے۔ روپے کی قدر میں کمی بھی افراط زر میں اضافے کا باعث بنے گی اور لوگوں کی توقعات شرح تبادلہ میں مزید گراوٹ کا تقاضہ کرینگی، کیونکہ ملک میں معاشی استحکام کیلئے ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آرہے۔ سوم، بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں 25 فیصد اضافہ ہوا جو حوصلہ افزا ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ عیدالاضحی کی وجہ سے ہوا ہے اور اس کا تعلق نئی حکومت کے قیام سے نہیں ہے۔ چہارم، بیرونی سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا لہذا فی الحال بیرونی سرمایہ کار سامنے نہیں آرہا۔ پنجم، پیٹرولیم قیمتوں میں کمی کا اعلان ایک سیاسی منفعت کا حصول ہے جبکہ معاشی تقاضہ اسکے برعکس تھا۔ اگست کے شروع میں جو اضافہ ہونا تھا، عبوری حکومت نے اسے مو¿خر کردیا تھا کہ نئی حکومت کریگی، قبل ازیں وسط جولائی میں جب حکومت کو گمان ہوا کہ سپریم کورٹ ان قیمتوں سے متعلق کوئی سخت فیصلہ کرنے والی ہے تو از خود ٹیکسوں میں کمی کرکے قیمتوں کو کم کردیا لیکن ان دونوں باتوں سے ٹیکس کی وصولی میں کمی واقع ہوگی جس کو کسی حد تک پورا کرنے کا موقع اس ماہ مل گیا تھا لیکن اس کو اس لئے استعمال نہ کیا گیا کہ حکومت کی عوام میں مقبولیت میں اضافہ ہوجائے۔
درحقیقت یہ سوچ معیشت کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ لیڈرشپ یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو آسانیاں کسی اور کے خرچے پر مہیا کردی جائیں۔ قرض پر چلنے والی معیشت ہر وقت تقاضہ کر رہی ہے کہ اندرونی وسائل پیدا کئے جائیں۔ اگر اس میں دشواریاں ہیں تو کم از کم اس بات سے احتراز کیا جاسکتا ہے کہ جو ٹیکس موجود ہے حاصل ہو رہا ہے اس کو نئی مراعات کی شکل میں ضائع کردیا جائے۔ عباسی حکومت نے جاتے جاتے ایسا ہی کمال کیا تھا جب اس نے انفرادی ٹیکس کی شرح 35 فیصد سے کم کرکے 15 کردی اور قابل ٹیکس آمدنی چار لاکھ سے بڑھا کر بارہ لاکھ روپے کردی۔ ان دونوں اقدامات کیوجہ سے 100-150 ارب روپے کا ٹیکس وصولی کا نقصان ہوگا۔ بدقسمتی سے ان مراعات کا اطلاق یکم جولائی سے ہوا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ شاہ خرچی نئی حکومت کے کھاتے میں پڑ رہی ہے جبکہ اس کی داد و تحسین عباسی حکومت نے وصول کرلی۔ آخری بات یہ کہ مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں ٹیکس کی وصولی میں صرف 14 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ کم از کم 18 فیصد کی ضرورت تھی۔ لہذا یہاں بھی سخت محنت کی ضرورت ہے۔
اس پس منظر میں فی الحال تو لگتا ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ معیشت کو “جوں کا توں” چلنے دیا جائے لیکن یہ حکمت عملی زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ اس کی بڑی وجہ معاشی قوانین کا جبر ہے جن سے عارضی طور پر صرف نظر تو کیا جاسکتا ہے لیکن پھر وہ بالآخر آپ کو پکڑ لیتے ہیں۔ ان قوانین میں اہم ترین وسائل اور اخراجات میں توازن کو برقرار رکھنا ہے، جو اس وقت عظیم تفاوت کا شکار ہے۔ یقیناً یہ حالت حکومت کو وراثت میں ملی ہے، لیکن اس کو درست کرنے کی ذمہ داری اب اسی کی ہے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ، جبکہ اس کی درستگی کیلئے کوئی قدم نہ اٹھایا جائے، یہ تفاوت بڑھتا جائیگا۔ اگر حکومت کا خیال ہے کہ اس کی ضرورتیں دوست ممالک پورا کرینگے تو یہ خام خیالی ہے۔ جو قوم خود اپنے وسائل کو جمع کرنے سے احتراز کرے اسے کون اور کتنی دیر وسائل مہیا کرسکتا ہے۔ ہمیں خود کو لاحق دکھوں کی چارہ گری خود ہی کرنی ہوگی اور یہ دکھ بہت لادوا نہیں ہیں۔
حکومت کا آغاز : تذبذب، گومگو اور ہچکچاہٹ
Sep 02, 2018