ترکی اور پاکستان کے تعلقات لازوال اور مثالی ہیں۔ دنیا میں دو ہی قومیں ہیں جنہیں پاکستان اور اسکے عوام سے محبت ہے وہ ہیں ترکی اور چین کے باقی ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات رسمی ہوتے ہیں حکومتی سطح پہ محدود اور مفادات پہ مبنی صرف ترکی اور چین کے عوام ہم سے بے لوث پیار کرتے ہیں اور ہر آزمائش کی گھڑی میں ہمارا ساتھ دیتے رہے ہیں۔1993ء میں مجھے ترکی کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت میں بطورنیول اینڈ اتاشی سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں تعینات تھا۔ گرمیوں کی تعطیلات میںفیملی کے ساتھ بذریعہ موٹر کار ریاض سے اردن شام لبنان سے ہوتے ہوئے اسکندرون کے مقام پہ ترکی میں داخل ہوئے۔ پہلے پٹرول پمپ پہ رکے۔ پٹرول پمپ کے مالک نے دریافت کیا کہ ہمارا تعلق کس ملک سے ہے۔ جب ہم نے بتا یا کہ ہم پاکستانی ہیں تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور اس نے ہمارے لئے جوس منگوایا اور آئو بھگت گی۔ راستے میں ہم کسی سے پتہ پوچھتے۔انگریزی زبان سے ناآشناہونے کے باوجودہ جب کسی کو ترک توپتہ چلتا کہ ہم پاکستانی ہیں تو وہ اجازت لے کر ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاتا اور جائے مقصود پہ پہنچا کردم لیتا۔ استنبول جاتے ہوئے ہم راستہ بھٹک کر یونان کی جانب چل پڑے۔راستے میں موٹر سائیکل پہ سوار ایک ترک پویس والے سے استنبول کا راستہ پوچھا۔ وہ بھی انگریزی سے ناآشنا تھالیکن اس نے اشارے سے کہا کہ میرے پیچھے آئو۔ ہم چل پڑے اس نے اپنے موٹر سائیکل کا سائرن اور پویس کی گھومنے والی بتی روشن کردی۔ ہم اسکے پیچھے اس شان سے استنبول میں داخل ہوئے جیسے کہ کوئی وی آئی پی ہوں۔ ہمارے ہوٹل تک اس نے پہنچا اور مصافحہ کرکے روانہ ہوا۔
مولانا جلال الدین رومی ؒ کے مزار پہ حاضری دینے ہم قونیہ کے شہر پہنچے تو ہماری گاڑی خراب ہوگئی ورکشاپ کا پتہ پوچھتے ہوئے ہم وہاں پہنچے تو زبان کا مسئلہ تھا کہ ہم گاڑی کی خرابی کاکیسے بتائیں۔ ورکشاپ کے مالک نے میری فیملی کو ویٹنگ روم میں بیٹھا دیا اور جوس خشک میوجات سے انکی خاطر تواضع کی۔انہوں نے معذرت کی کہ ان کے پاس کوئی پاکستانی فلم نہیں لہٰذا وی سی آر پہ ایک بھارتی فلم لگادی ۔قریب کے اسکول سے انگریزی کے استاد کو بلوایا گیا جنہوں نے گاڑی کا مسئلہ پوچھ کرترکی زبان میں ترجمہ کیا۔ جب گاڑی ٹھیک ہوگئی تو ورکشاپ کے مینجرنے بل میں50% تخفیف کردی اور ہماری بیگم صاحبہ کو کرسٹل کا واٹر سیٹ تحفے میں دیا کہ آپ پاکستانی ہیں اور ہمارے معززمہمان ہمیں افسوس ہے کہ ہم آپکی زیادہ خاطرنہ کرسکے۔
ایک ترک فوجی افسرنے ہمیں دعوت پہ مدعو کیا ہم نے اس سے پوچھا کہ ترک عوام ہم پاکستانیوں سے کیوں اتنی محبت کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ خلافت عثمانیہ کا زوال جب قریب تھا تو ہندوستان کے مسلمانوں نے خلافت تحریک چلائی۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا لیکن اس اتحاد کو شکست ہوئی ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو جواس وقت انگریزوں کے غلام تھے بادل نخواستہ برطانوی فوج کا ساتھ دینا پڑالیکن ہندوستانی مسلمانوں نے برطانوی وزیراعظم لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کا احترام کریں اور خلافت عثمانیہ کو بحال رکھیں گے۔ جنگ کے بعد خلافت عثمانیہ دیوالیہ ہوگئی تھی تو ہندوستان کے مسلمانوں نے چندہ کیا۔عورتوں نے اپنے گہنے تک عطیہ کردئے۔ دوسرا موقع اس وقت آیا جب26اگست1924 کو غازی مصطفیٰ کمال اتاترک نے ترکی کے پہلے قومی بینک کی بنیاد رکھی تو بینک چلانے کے لئے رقم نہ تھی۔ اس وقت بھی برصغیر کے مسلمانوں نے پہل کی اور چندہ کیا گیا۔ مسلمان عورتوں نے اپنے سونے کے زیور تک اتار کر ترک خزانے میں جمع کرادئے۔ ہمارے میزبان نے ہمیں بتایا کہ ترک قوم احسان فراموش نہیں۔ اسکول کے نصاب کی کتب میں یہ دونوں واقعات درج ہیں تاکہ ان کے محسنوں کویادرکھا جائے۔1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ترکوں نے اپنی محبت کو پاکستانی قوم کے لئے وقف کردی۔ ترک عوام کا بچہ بچہ ان دونوں واقعات سے واقف ہے۔
تیسرا موقع اس وقت پیش آیا جب1947ء میں یونانی افواج نے شمالی قبرص پہ قبضہ کر لیا اور قبرصی مسلمانوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنانا شروع کیا تو ترکی نے مسلمانوں کو یونانیوں کے ظلم کے چنگل سے بچانے کی خاطر اپنی فوجیں شمالی قبرص میںا تاردیں اور گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ پاکستان نے ترکی کوبھرپور امداد کی پیشکش کی لیکن ترکی نے کہا کہ اسکی ضرورت نہیں۔ ہمارے اصرار پہ پاکستان سے طبی امداد کی حامی بھرلی گئی۔ پاکستان کی جانب سے جنگ کے پہلے ہی دن ڈاکٹر نر س ادویات کمبل اورضروری سامان افقرہ پہنچادیا گیا۔بعد میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہا استنبول کے عسکری عجائب گھر میں پاکستان کے اس اقدام کی تفصیلات ایک خصوصی تختی پہ نصب ہیں تاکہ ترک قوم پاکستان کا یہ احسان بھلانہ سکے۔ دوسری جانب پاکستان پہ جب بھی آزمائش کی گھڑی آئی تو ہمارے ترک بھائی ہمارے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ خواہ وہ پاک ۔بھارت جنگیں ہوں یا قدر تی آفات ترک ہماری مدد میں پیش پیش رہے۔ 2005ء کا ہولناک زلزلہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں تباہی مچاگیا۔ ٹی وی اسکرینیں یہ منظر دکھاتی رہیں جسے ہم بھلا نہیں سکتے کہ ترک امداد ی ٹیم سب سے پہلے پہنچے والوں میں تھی۔ ترک عورتیں اسکول کے بچے اور نوجوان گھر گھر جاکر زلزلہ زدگان کے لئے مالی امداد کے علاوہ کمبل گرم کپڑے خیمے ادویات اور خوراک جمع کرتے رہے۔ یہی حال 2010ٗء اور2011ء کے سیلاب کے دوران تھا۔بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے 1971ء کی جنگ کے وقت پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والوں کو جھوٹ مقدمہ چلا کر تختہ دار پہ لٹکا ناشروع کیا تو حکومت پاکستان کی جانب سے احتجاجی کلمات نہ ادا ہوئے لیکن ترک صدر رجب طیب اردگان نے شیخ حسینہ کو للکارا کہ وہ یہ سیاسی ڈرامہ رچاکر پاکستان کا ساتھ دینے کے الزام میں لوگوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ فوری طورپر بند کرے۔ دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمان ظلم وجبر کا شکار بنتے ہیں۔ ترکی اور خاص طورپر صدر رجب طیب اردگان انکی حمایت میں کھڑے ہوجاتے ہیں خواہ وہ فلسطینی ہوں‘ کشمیری افغان‘ شامی یا ایرانی۔ترکی امریکہ کا حلیف بھی ہے اور نیٹو کارکن لیکن امریکہ کو صدر طیب اردگان ایک آنکھ نہیں بھاتے کیونکہ وہ اسرائیل کو بھی فلسطین پہ ظلم کی وجہ سے آنکھیں دکھاتے ہیں اور امریکہ کو بھی ۔15جولائی 2016ٗء کو امریکہ کی پشت پناہی سے فوجی بغاوت شروع ہوئی کہ صداردگان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ ترک عوام اپنے محبوب صدر کی حکومت کو بچانے کی خاطر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور بغاوت کو ناکام بنا دیا۔صدر اردگان نے باغیوں کو گرفتار کرکے عبرتناک سزائیں دیں جس پر امریکہ نے احتجاج بھی لیکن جب صدراردگان نے ایک امریکی پادری اینڈر یوبرنسن کو گرفتار کرلیا کہ وہ باغیوں کے ساتھ ملاہوا تھاتو صدر ٹرمپ نے مطالبہ کیا کہ اسے فوری طورپر رہا کیا جائے۔ صدراردگان کے انکارپر امریکہ نے ترکی پہ دبائو کی خاطر اس پہ معاشی پابندیاں عائد کردیں۔ سب سے پہلے المونیم اور فولاد کی قیمتیں دوگنی کردیں۔ ترکی یہ دونوں چیزیں امریکہ سے درآمد کرتا ہے کیونکہ وہاں تعمیراتی کام عروج پہ ہیں۔ امریکہ کی اس حرکت سے ترک معیشت کا تقریبا دیوالیہ نکل گیا اور ترک کرنسی لیرا کے قدرمیں تیزی سے تنزلی آئی۔ اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کی خاطر ترکی کے زرمبادلہ کے ریزرو کی ضروریات میں کمی کی اور جواب میں امریکی برقی آلات امریکی کمپنیوں مثلا’’ سیکنڈوفلڈ‘‘ کوک ‘پیسپی وغیرہ کی درآمد پہ پابندی عائد کردی۔
برادر ملک قطرنے فوری طورپر ترک معیشت میں پندرہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستانی ایک مرتبہ پھراپنے ترک بھائیوں کی حمائت میں اٹھ کھڑے ہوں۔صدر رجب طیب اردگان امریکہ اور خصوصی طورپر صدررجب طیب اردگان امریکہ اور خصوصی طورپر صدر ٹرمپ کے غرور اور گھمنڈ کو توڑنے کی خاطر ایک نئے اتحاد کو تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں جس میں وہ ممالک شامل ہوںجو امریکہ کے ہاتھ ستائے ہوئے ہوں مثلا روس ‘ ایران‘ پاکستان‘ چین اور ترکی ۔صدررجب طیب اردگان نے وزیراعظم عمران خان کوٹیلی فون کر کے منصب سنبھالنے پر مبارکباد بھی دی اور اس نئے اتحاد میں شمولیت کی دعوت بھی دی ہے۔حکومتی سطح پہ ترکی کے ساتھ جو تعاون ہوگا وہ اپنی جگہ پہ لیکن ہم عام پاکستانیوں کو اپنی حمائت کا بھر پور اظہار کرنا ہوگا۔ ترکی کاساتھ دینے اسکی گرتی معیشت کو سہارادینے اور ترک عوام کی مدد کی خاطر کچھ اقدامات ہیں جو ہم اٹھاسکتے ہیں۔ عام بازار سے کرنسی تبادلے کے مراکز سے ترکی کی کرکرنسی لیراخرید یں۔ امریکی مصنوعات کابائکاٹ کر کے ترک مصنوعات کے استعمال کو اپنائیں۔ ترکی اسلامی اور تاریخی مقامات کا سیاحی مرکزہے۔ اگر ہم سیاحت کی خاطر بیرون ملک جائیں توترکی کاانتخاب کریں۔ سفر کے لئے ترک ائرلائن استعمال کریں۔ ترکی اعلیٰ تعلیمات کا بہترین مرکز بھی ہے جہاںتعلیم سستی ہے ہمیں چاہئے کہ اگر ہم اپنے لئے یا اپنے بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کا فیصلہ کریں تو ترکی جائیں۔
آئندہ ہفتے ایران‘ ترکی اور روس شام سے متعلق تہران میں ملاقات کررہے ہیں۔ پاکستان کوبھی چاہیے کہ اس میں شامل ہوتا کہ طاقت کا منبع مغرب سے ہٹ کر مشرق میں منتقل ہو۔ پاک ترک دوستی زندہ باد۔
ترک بھائیوں کیلئے پاکستان کی حمائت
Sep 02, 2018