پنجاب پاپولیشن اینویشن فنڈز (پی پی آئی ایف) میں وسیع پیمانے پر مالی بدعنوانیاں سامنے آئی ہیں‘ فنڈز انتظامیہ نے کروڑوں روپے نجی اداروں میں تقسیم کردیئے جبکہ فنڈز کے قیام کے مقاصد بھی حاصل نہ کئے جاسکے۔ شہباز شریف دور حکومت میں وزارت پاپولیشن ویلفیئر میں اس فنڈز میں مبینہ اعلیٰ پیمانے پر بدعنوانیاں بڑا سکینڈل بن کر سامنے آئی ہیں جبکہ نیب حکام بھی فنڈز میں مبینہ کرپشن پر تحقیقات کرنے میں مصروف ہیں ان فنڈز کے کرتا دھرتا جواد خان ‘ محمد ہاشم ‘ ریحان طاہر ‘ علی عمران تھے جنہوں نے قومی فنڈز کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اپنی ذاتی تجوریاں بھری ہیں اب عدالت کے حکم پر جاری تحقیقات میں مبینہ حکام نے انہیں طلب کرلیا ہے۔ ذرائع سے حاصل دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ انتظامیہ نے دفاتر کے نام پر نیو گاردن ٹاﺅن لاہور میں بنگلہ کرایہ پر لیا ہوا تھا جس کا ماہانہ کرایا چار لاکھ پچیس ہزار روپے ادا کیا گیا۔ انتظامیہ نے بنگلہ کے مالک کو یکمشت 25 لاکھ روپے ادا کردیئے۔ قانون کے مطابق رہائشی علاقوں میں کوئی بھی بنگلہ دفتر کیلئے کرایہ پر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ مزید پتہ چلا ہے کہ فنڈز میں 13 سیاسی ورکروں کو بھاری تنخواہوں پر بھرتی کیا گیا تھا جن کی تصدیق متعلقہ پولیس حکام سے حاصل نہیں کی گئیں۔ انتظامیہ نے من پسند لیگل فرم کو ہائر کرکے 18 لاکھ فراہم کردیئے یہ لاہور کی لاءفرم اے بی ایس تھی جس کا تعلق شہباز شریف سے جاکر ملتا ہے کرپشن کی دستاویزاتوں کے باہر آنے کے موقف سے انتظامیہ نے محکمہ میں آڈٹ آفیسر بھی تعینات نہیں کیا ہے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فنڈز کی انتظامیہ نے اختر حمید اینڈ ریسورس نامی ادارہ کو 21 ملین روپے دیئے۔ ہیلتھ نیوٹریشن ڈویلپمنٹ سوسائٹی (ھینٹرز) کو چالیس ملین ادا کئے گئے جبکہ انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچر سٹڈیز کو 9 ملین روپے ادا کئے گئے اس دسارے مالی معملات کا ریکارڈ اب نیب کے پاس ہے اور مبینہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کا کھوج لگایا جارہا ہے اس ادارہ کا قیام کا مقصد بہبود آبادی پر کام کرنے والے اداروں کی اصلاح اور منصوبہ بندی میں مدد دینا تھی تاکہ صوبہ کے غریب طبقہ کی مدد کرکے انہیں معاشی اور سماجی سطح پر اوپر لایا جائے۔