کشمیر آور ! آل پارٹیزکانفرنس ملتوی

وزیر اعظم عمران خان کی کال پر جمعہ کو ملک بھر میں مظلوم کشمیری عوام کے ساتھ کشمیر آور‘‘ منایا گیا وزیر اعظم آفس اور پارلیمنٹ ہائوس کے سبزہ زار میں تقریبات کا انعقاد تو ہوا لیکن شاہراہ دستور اور ڈی چوک میں ’’کشمیر آور‘‘میں ہونے والے مظاہروں میں کسی اعلیٰ شخصیت نے شرکت نہیں کی کشمیر آور میں عوام نے کشمیری عوام سے بھرپور انداز میں اظہار یک جہتی دیکھنے میں آئی لیکن حکومت اور اپوزیشن کا اکھٹے کوئی بڑا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا اپنے اپنے دفاترکے دروازے اور سبزہ زاروں تک مظاہرے محدودرہے وزیر اعظم عمران خان پارلیمنٹ ہائوس کے باہر آئے اور نہ ہی شاہراہ دستور اور ڈی چوک میں کسی عوامی ریلی میں شرکت کی وزیر اعظم خطاب مکمل کر کے 12 بجکر 22 منٹ پر واپس اپنے دفتر چلے گئے ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے نصف گھنٹہ تک مظاہرہ کیا اور سڑک پر آنے کی بجائے پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر چلے گئے ۔ حکومت کی طرف سے اعلیٰ شخصیات کی کھلے عوامی مقامات پر ریلیوں اور مظاہروں میں شرکت کا اعلان کیا گیا تھا لیکن سیکیورٹی کے باعث اعلانات پر عمل درآمد نہیں ہوا سینیٹ میں دو روز تک کشمیر کی صورت حال پر بحث کے بعد مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یک جہتی کیلئے متفقہ قرار داد منظور کی گئی پارلیمنٹ ہائوس کے باہر بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے اور مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کیخلاف احتجاجی مظاہر ہ کیا گیا ، جس میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ، چیئرمین کشمیر کمیٹی سید فخر امام سمیت بڑی تعداد میں ارکان پارلیمنٹ،ملازمین اور طلبا ء نے شرکت کی، اس موقع پرکشمیر بنے گا پاکستان ، کشمیر کی آزادی تک جنگ رہے گی کہ فلک شگاف نعرے بھی لگائے گئے، پاکستان سویٹ ہومزکے بچوں کی جانب سے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے شاندار مارچ پاسٹ کا مظاہرہ کیا گیا لیکن اس مظاہرے میں پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف ، شیری رحمنٰ کے علاوہ اپوزیشن کے کسی قابل ذکر رہنما نے شرکت نہیں کی پاکستان مسلم لیگ(ن) کا اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہو رہا تھا کسی بڑے مسلم لیگی نے مظاہرے میں شرکت نہیں کی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پارلیمنٹ لاجز میں اپنے سٹاف کے ہمراہ ’’کشمیر آور‘‘ منایا ’’کشمیر آور ‘‘ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان پایا گیا۔
سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے 30اگست 2019ء کو منعقد ہونے والا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کامشترکہ اجلاس اچانک ایک روز قبل ملتوی کر دیا اس اجلاس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خطاب کرنا تھا صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب آئینی تقاضا ہے حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے انعقاد کیلئے تمام انتظامات مکمل کر رکھے تھے مہمانوں کو دعوت نامے بھی جار ی کر دئیے گئے تھے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار صدر مملکت کے خطاب کیلئے طلب کیا گیا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا گیاچونکہ صدر کے خطاب کے بعد قومی اسمبلی کا دوسرا پارلیمانی سال شروع ہونا ہے قومی اسمبلی کا اجلاس 2ستمبر 2019ء کو طلب کیا گیا تھا یہ اجلاس بھی غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا سرد ست سرکاری طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم باور کیا جاتا ہے دونوں اجلاس حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’کشیدہ تعلقات ‘‘ کی’’ بھینٹ ‘‘ چڑھ گئے سپیکر کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کہ اپوزیشن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے دوران ہنگامہ آرائی کرکے پارلیمنٹ کے اجلاس کی کارروائی نہیں چلنے دے گی اس لئے انہوں نے دونوں اجلاس ملتوی کرنے میں عافیت سمجھی ۔ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب سے قبل اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کیلئے گرفتار ارکان آصف علی زرداری، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ ، محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کیلئے سپیکر کو قومی اسمبلی کو درخواست دیدی تھی اور سپیکر سے ملاقات کر کے گرفتار ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا تھا پروڈکشن آڈرز جاری کرنے کے معاملے کی وجہ سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کیا گیا ہے۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ’’پروڈکشن آرڈرز‘‘ کا معاملہ طے ہونے کے بعد 3 یا 4 ستمبر کوطلب کئے جانے کی تجویز زیر غور ہے اس وقت قومی اسمبلی کے ارکان میں پیپلزپارٹی کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری ،مسلم لیگ(ن) کے رہنمائوں سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ،سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نیب کیسز میں گرفتار ہیں جب کہ محسن داوڑ اور علی وزیر امن و امان خراب کرنے کے الزام میں گرفتار ہیں۔ اپوزیشن نے گرفتار ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہ کرنے کی صورت میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مشترکہ اجلاس میں ہنگامہ آرائی کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اپوزیشن نے سپیکر کو باور کرا دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اپنے خطاب میں جہاں کشمیر کی صورت حال پر مرکوز کرنا تھی وہاں انہوں نے حکومت کو گائیڈ لائن دینی تھی اور ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لینا تھا لیکن اپوزیشن کے دبائو میں آکر حکومت نے پارلیمنٹ سے ’’راہ فرار ‘‘ اختیا ر کر لی پارلیمانی محاذ پر حکومت کی یہ بڑی شکست ہے حکومت اپوزیشن کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر پارلیمانی امور خوش اسلوبی سے نمٹا سکتی ہے۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف صاحب فراش ہیں کمر میں تکلیف کی وجہ سے انہیں ’’ آرام ‘‘ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس کے باعث انہوں نے اپنی تمام سیاسی مصروفیات منسوخ کر رکھی ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے حکومت کیخلاف اپوزیشن میں صف بندی شروع ہو رہی ہے حکومت کے 29 اگست 2019ء کو منعقد ہونے والی تیسری آل پارٹیز کانفرنس پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی علالت کے باعث ملتوی کر دی گئی ہے مولانا فضل الرحمن نے تیسری آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کو میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی شرکت سے مشروط کر دیا ہے اگر ان کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت میں لیت و لعل سے کام لیا گیا تو مولانا فضل الرحمن نے تو حکومت گرانے کیلئے اکتوبر 2019ء میں ’’ ملین مارچ‘‘ کا فیصلہ کر رکھا پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن کے ’’ملین مارچ ‘‘ سے اختلاف نہیں کر رہیں لیکن تاحال ’’ملین مارچ‘‘ کیلئے تاریخ کا تعین بھی نہیں ہونے دے رہیں جمعیت علما اسلام (ف) کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اکتوبر2019ء کو اسلام آباد میں آزادی مارچ کے فیصلے کی توثیق بھی کردی ہے جمعیت علمائے اسلام (ف) کشمیر یوں کے ساتھ حکومت کی پالیسی کو بھی احتجاجی تحریک کا حصہ بنائے گی۔ آل پارٹیز کانفرنس ملتوی ہونے کے باعث رہبر کمیٹی کے اجلاس میں بھی ’’چارٹر آف ڈیمانڈز‘‘ تیار نہیں ہو سکا البتہ ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں تمام ارکان نے اپنے مطالبات کی فہرستیں کنوینئر کمیٹی کے سپرد کر دیں جو یہ مطالبات مولانا فضل الرحمنٰ کو پیش کر دی گئی ہیں ۔

محمد نواز رضا--- مارگلہ کے دامن میں

ای پیپر دی نیشن