لاہور ( شہزادہ خالد) پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے چلنے والی گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ کو ٹھیکے پر دینے سے قومی خزانے کو سبسڈی کے نام پر کروڑوں روپے کا بوجھ برداشت کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی جانچ پڑتال کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر 2016 ء میں پنجاب میں وہیکل انسپکشن اینڈ سرٹیفکیشن سسٹم کو پرائیویٹ غیر ملکی کمپنی کو دے دیا گیا۔ وی آئی سی ایس کا بنیادی مقصد روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات میں کمی لانا او ر ان پر قابو پانا تھا جو تین برس گذرنے کے باوجود ناکام ہو گیا۔2016 ء میں سویڈش فرم او پس انسپکشن پرائیویٹ لمٹیڈ کے ساتھ پنجاب میں گاڑیوں کی جانچ پڑتال اور سرٹیفیکیٹ کے اجراء کا معاہدہ کیا گیا ’’بی او ٹی ‘‘کی بنیاد پر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت پہلے مرحلے میں لاہور ڈویژن اور بعد ازاں صوبہ بھر میں پبلک سروس وہیکلز انسپکشن کا سسٹم قائم کردیا گیا۔ اس سسٹم سے قبل صرف لاہور کو دو سے تین کروڑ روپے سالانہ کا ٹارگٹ دیا جاتا تھا اور اسے حاصل بھی کر لیا جاتا تھا لیکن اس سسٹم کو ٹھیکہ پر دینے کے بعد سے حکومتی خزانے کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے اور سبسڈی کی مد میں کروڑوں روپے غیر ملکی کمپنی کو دئیے جا رہے ہیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے افسروں، عوامی اور ٹرانسپورٹرز کی رائے کے مطابق یہ سسٹم مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے اور قومی خزانے پر بوجھ بن گیا ہے۔ معاہدے کے مطابق سویڈش فرم وی آئی سی نے ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنا تھی اور تقریبا 700 افراد کو روز گار کے مواقع مہیا کرنا تھے۔ لاہور میں سویڈش کمپنی نے تین سنٹر کالا شاہ کاکو، چوہنگ ملتان روڈ اور گرین ٹائون میں بنا رکھے ہیں۔ معاہدے کے مطابق امریکن ماہرین پاکستانی سٹاف کو گاڑیوں کی انسپکشن کی جدید ٹریننگ دیں گے اور پنجاب بھر میں تمام عوام ٹرانسپورٹ کو قانون کے دائرہ کار میں لائیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ وی آئی سی ایس سٹیشن پر فٹنس سرٹیفکیٹ کیلئے 7 عالمی پیمانے مقرر کئے گئے ہیں (جن میں الائنمنٹ انسپکشن ٹیسٹ ، بریک انسپکشن ٹیسٹ، ویژیول انسپکشن ٹیسٹ ، وہیکل سسپنشن ویری فکیشن ٹیسٹ ، ہیڈ لائٹ انسپکشن ٹیسٹ، امیشن انسپکشن ٹیسٹ او روہیکل نائذ(Noise ) انسپکشن ٹیسٹ شامل ہیں) جن کے ذریعے گاڑی کے ناگزیر فنکشن کی جانچ پڑتال ممکن ہوگی۔ جن کی خرابی کی صورت میں حادثے کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ یہاں پر بڑی گاڑی کی انسپکشن 30 منٹ ، چھوٹی گاڑی 20 منٹ اور رکشے کی انسپکشن کا عمل 15 منٹ میں مکمل کیا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹرز نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس سسٹم کو حکومتی تحویل میں لیا جائے تاکہ غیرضروری سبسڈی کی مد میں جانے والی خطیر رقم قومی خزانے کو مل سکے۔