یونیورسٹی کے زمانے میں رفیق نامی ایک دلچسپ کردار ہمارا کلاس فیلو ہوا کرتا تھا۔پورا نام تو نا معلوم اُس کا کیا تھا لیکن ہمارے’’پینڈوگروپ‘‘ میں وہ فیکا نجومی کے نام سے معروف تھا جسے ہمارے چنددل جلے دوست ’’پھیکا نجومی‘‘ بھی کہتے تھے۔ فیکا اپنی عمر کے اُس حصے میں تھا جہاں کلاس کی سب لڑکیوں کے ساتھ اکثر اساتذہ بھی ’’سینئر سٹیزن‘‘ کے طور پر اُس کااحترام کرتے تھے،جس پر وہ خوش ہونے کی بجائے اُلٹا بد مزا ہوتا تھا۔ بالخصوص صنفِ نازک کی جانب سے عمر کی بنیاد پر اپنے لئے احترام کا رویہ اُسے بالکل نہیں بھاتا تھا ۔اُس کا کہنا تھا کہ’’ عمروں کے ہلکے پھلکے تفاوت کے باوجود یونیورسٹی میںہم سب لڑکے اور لڑکیاں آپس میں برابر ہیں ‘‘ سو اس کی شدید خواہش ہوتی کہ لڑکیاں اُسے آپ جناب کی بجائے بے تکلفی سے تُو یا تم کہہ کر مخاطب کریںحالانکہ فیکے کا واحد ’’ایڈوانٹیج‘‘ اس کی یہی ’’ سنیارٹی‘‘ تھی جس کی آڑ میں وہ لڑکیوں کے ہاتھ دیکھتا تھا۔ جس کے بارے میں ہمارے ’’پینڈو گروپ‘‘ کو اجتماعی شک تھا کہ فیکا علمِ نجوم کے حوالے سے بالکل کورا تھا اور وہ لڑکیوں کے ہاتھ دیکھتا نہیں تھا بلکہ انہیں ہاتھ دکھاتا تھا۔اس کے ثبوت میں ہم لوگوں کے پاس یہ دلیل تھی کہ جب بھی ہم میںسے کوئی اُسے ہاتھ دکھانے کی فرمائش کرتا تو وہ ہمارا ہاتھ دیکھنے کی بجائے اُلٹا ہمیں آنکھیں دکھاتا تھا ۔ ایک بار جبکہ وہ حسبِ معمول لڑکیوں میں گھرا باری باری اُن کے ہاتھ دیکھ رہا تھا، پتہ نہیں کیسے حنیف جذباتی نے اُسے اپنا ہاتھ دیکھنے پر راضی کرلیاجسے بادل نخواستہ تھوڑی دیر دیکھنے کے بعدوہ کہنے لگا’’ ایک خوبصورت لڑکی بار بار تمہارے راستے میں آئے گی، تم اس سے ہوشیار رہنا۔‘‘ حنیف نے مسکراتے ہوئے ایک ادائے دلبرانہ سے اُسے دیکھا اور کہا’’ مجھے ہوشیار رہنے کی کیا ضرورت ہے،ہوشیار تو اُسے رہنا چاہیے‘‘۔
جس پرلڑکیاں بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑیں، جس سے فیکے کو لڑکیوں کے سامنے اپنی سُبکی محسوس ہوئی۔بس اُس دن کے بعد سے فیکے نے پلٹ کر ہمارے ’’پینڈو گروپ‘‘ کی طرف نہیں دیکھا، غالباََ اُسے یہ اندیشہ تھا کہ ہم جیسے غیر مہذب،غیر سنجیدہ اور منہ پھٹ لوگوں سے اس کی ’’دکانداری‘‘ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ بعد میں ہم نے اُسے رام کرنے کے لئے ایک حکمتِ عملی کے تحت ’’پینڈو گروپ‘‘ کے معززین پرمشتمل وفد کی صورت باضابطہ طورپر اُس سے حنیف جذباتی کے روئیے کی معافی بھی مانگی لیکن وہ خاصاہوشیار نکلا اور ہمارے دام میں نہیں آیا۔ فیکا علم نجوم سے واقف تھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن بہرحال یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں تھی کہ وہ اپنے ہنر میں طاق ایک ماہر کاریگر ضرور تھا اور اپنے اس فن کی بدولت وہ بالخصوص لڑکیوں میں ’’ہاتھوں ہاتھ‘‘ مقبول تھا۔ہمارے خیال میں فیکا نجومی یوں تو بے شمار خرابیوں کا مالک تھا لیکن بطور خاص ہمیں اس کی جو خرابی کھٹکتی تھی، وہ اس کا فنِ دست شناسی تھا جسے ہم دوستوں نے’’ فنِ دست درازی‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ شروع دنوںمیں فیکے نجومی کا حلقہ واردات صرف ہمارے شعبے تک محدود تھا لیکن رفتہ رفتہ اس کا اثروناسور دیگر شعبوں تک بھی پھیل گیا۔ اس لئے فیکے نجومی کے جھوٹ کا کاروبار خوب چلا۔دراصل فیکا اپنی بڑی عمر،تجربے اور چالاکی سے لڑکیوں کی دُکھتی رگ جان گیا تھا جس کا فائدہ اُٹھا کر وہ لڑکیوں کو خوب بیوقوف بناتا اور یونیورسٹی کینٹین میں اُنکے پہلو میں بیٹھ کر اُن کے پلے سے دہی بھلوں،فروٹ چارٹ،چائے سموسوں اور آئس کریم کے مزے اُڑاتا تھا۔آج جبکہ ہمیں یونیورسٹی سے فارغ ہوئے ایک طویل عرصہ ہوگیا ہے، ہماری طرح ان لڑکیوں نے بھی اپنی عملی زندگی میں قدم رکھ لیا ہوگااور انہیں صحیح معنوں میں آٹے دال کا بھائو معلوم ہو گیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے انہیں آج بھی فیکے نجومی کی پیش گوئیاں یاد ہوں اور چند ایک ’’مستقل مزاج‘‘ تو ابھی تک ان پر ایمان بھی رکھتی ہوں۔اچھی زندگی کے خواب دیکھنا ہرگز بری بات نہیں ہے مگر محض خوش کن تصورات اور ’’لاروں‘‘کے سہارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے سے کسی کے دن نہیں بدلتے۔تقدیر بنانے کے لئے تدبیر کرنی پڑتی ہے مگر ہمارا المیہ یہ کہ من حیث القوم ہم سب اس وقت اپنے اپنے فن میں طاق ’’ فیکے نجومیوں‘‘ کے گھیرے میں ہیں۔ان کے کئی روپ ہیں مگر کام وہی ایک یعنی بھولے بھالے عوام کو اُلو بنا کر اپنا اُلو سیدھا کرنا ہے۔ خوابوں کے یہ بے رحم تاجر قیام پاکستان سے آج تک بھولے بھالے عوام کو اپنے اپنے انداز میںبیوقوف بنا کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور اس سے بھی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہ بیچارے حقیقت حال سے انجان مسلسل انہی بہروپیوں کے سامنے اپنے خالی دامن اور ہاتھ پھیلائے سنہرے دنوں کی نوید سُن سُن کر خوش ہو رہے ہیں۔
٭…٭…٭