جنرل باجوہ کا کریڈیٹ ہے کہ انہوںنے ملکی قومی اور حکومتی امور میں کبھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر بھی ان کی توصیف کرنے کی بعض حلقوں کو تو فیق نہیں ہوتی۔ جنرل مشرف کے بعد تینوں آرمی چیفس نے کسی حکومت کا دھڑن تختہ نہیں کیا۔ ویسے ماضی میں ایوب خان ۔ یحییٰ خان ضیا الحق اور پرویز مشرف نے مارشل لا لگایا تو ہماری اعلی عدالتوں نے انہیں ایمنیسٹی دی ۔ عدلیہ نے پرویز مشرف کو بن مانگے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا۔ مگر جنرل باجوہ نے تو سر مو حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہوںنے اسے ہر مرحلے پر مضبوط اور مستحکم کیا۔ انہوںنے وارا ٓن ٹرر کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا اور آپریشن ردالفساد کے ذ ریعے ملکی اور غیر ملکی شر پسندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ فاٹا کو ملکی جغرافئے کا حصہ بنایا۔ مولانا فضل الرحمن نے دھرنا دیا مگر اس کی پشت پناہی نہیں کی الٹا مولانا سے طعنے سنے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بعض طعنوں کا جواب دیا تو انہیں بھی مولانا نے ٹارگٹ کیا۔
کشمیر کا مسئلہ سرد خانے میں پڑا تھا۔ بھارت نے اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر کو اپنی یونین کا حصہ بنا لیا تو نہ حکومت وقت نے۔ نہ وزیر اعظم نے اورنہ ا ٓرمی چیف اور نہ قومی حلقوںنے بھارت کی اس حرکت کو قبو ل کیا بلکہ سری نگر میں انسانی حقوق کی ان گنت خلاف ورزیوں کی ہر سطح پر مذمت کی۔ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں دھواں دار تقریر کی اور دنیا کو خبر دار کیا کہ کشمیر پر آئندہ لڑائی ہوئی تو اس سے تباہی کا دائرہ خطے کی حدود سے نکل کر دور تک پھیل جائے گا۔ وزیر اعظم نے یہ وارننگ مسلح افواج کی اشیر باد کی وجہ سے دی کیونکہ وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔کارگل کی طرح حکومت اور فوج میںکوئی محاذ آرائی نہ تھی بلکہ دشمن کو سبق سکھانے کے لئے حکومت اورفوج پوری طرح کیل کانٹے سے لیس تھے۔ بھارت کی دھمکی کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جارہا تھا، اور خطے میں چین کے ساتھ قربت پید اکرنے کی شعوری کوششیں کی گئیں جن میں آرمی چیف نے اہم او ر نظر آنے والا کردارا دا کیا۔ بھارت تو پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنا چاہتا تھا الٹا دنیانے اسے تنہا کر دیا،؛نیپال اور بنگلہ دیش بھی بھارت سے دور ہو گئے، سری لنکا تو پہلے ہی بھارت سے چڑا ہوا تھا۔ امریکہ جیسی سپرپاور کے صدر نے واشنگٹن میں عمران خان سے کہا کہ وہ مودی کی درخواست پر کشمیر کے لئے ثالثی کرنے کو تیار ہیں ۔یہ وہ وقت تھا جب بھارت کشمیر کو تنازعہ تسلیم کرنے کو تیار تک نہ تھا؛ سلامتی کونسل میں دو مرتبہ کشمیر کے مسئلے کا جائزہ لیا گیا۔ چین نے اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے دوسرے دور میںاعلامیہ جاری کیا کہ کشمیر کا تنازعہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔اسطرح بھارت کو عالمی فورم پر منہ کی کھانا پڑی۔جنرل قمر باجوہ خود بھی کنٹرول لائن اورو رکنگ بائونڈری کے دورے کرتے نظرا ٓئے۔ اپنے جوانوں کے ساتھ کرونا کے دوران عید پڑھی اور ان کی افواج نے بھارتی فوج کے ہاتھوں قربانیوں پر قربانیاں پیش کیں اور بھارت کی کوئی پیش نہیں جانے دی۔ کرونا کی وبا کے سامنے پاکستان کو اللہ نے سرخرو کیا مگر بھارت کی حالت آج بھی دگر گوں ہے۔ پاکستان کی یہ کامیابی حکومت اور فوج کے درمیان مکمل ہم آ ہنگی کا نتیجہ ہے۔ اس تجربے پر پوری دنیا حیران ہے اور پاکستان کے ماڈل پر ریسرچ کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں اپوزیشن کی ہر چال اس لیے ناکام ہے کہ اسے فوج کی ہلہ شیری نہیں ملتی۔ اس لئے کہ جنرل باجوہ خلوص دل سے جمہوری استحکام پر یقین رکھتے ہیں۔ نواز شریف مایوس ہو کر ملک سے جا چکے ہیں۔ شہباز شرف اپنے ا ور بیٹے کے لئے سلسلہ جنبانی کرنے میںمصروف ہیں مگرتجزیہ کہتا ہے کہ انہیں اس میں ناکامی ہو گی ۔ یہی حال پی پی پی کی لیڈر شپ کا ہے۔ زرداری مختلف مقدمات میں گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے ہیں اور طرفہ تماشہ ہے کہ نواز شریف اور زرداری پر جو بھی ،مقدمات ہیں وہ دونوں پارٹیوںنے اپنے اپنے دور حکومت میں ایک دوسرے پر قائم کئے موجودہ حکوت کا ان میں کوئی کردار نہیں ، وہ تو اپنے احتسابی ایجنڈے کو آگے بڑھانے پر تلی ہوئی ہے۔ اور کسی سے ڈھیل یا ڈیل کرنے کے موڈ میں نہیں ۔خود حکمران پارٹی کے اکابرین بھی تحقیقات کی زد میں ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کسی کو این آ راو نہیں دوں گاا ور فوج کا موڈ بھی یہی ہے کہ وہ اس میں فریق بننے کے لیے تیار نہیں۔ نیب جانے اور ملزم جانیں۔اب جی ایچ کیو کا کوئی عقبی دروازہ کسی پر نہیں کھلتا۔
جنرل قمر باجوہ کا اصل کمال یہ نہیں کہ انہوںنے ملک کو ناقابل شکست بنا دیا ہے۔ چین کی مدد تو حاصل ہے ہی مگر خود ملکی فیکٹریوں میں جے ایف تھنڈر اور الخالد ٹینک تیار ہو رہے ہیں اور نزدیک اور دور تک مارر کرنے والے میزائلوںکا ڈھیر بھی لگا دیا گیا ہے۔ بھارت نے فرانس سے پانچ رافیل طیارے ٔحاصل کئے اور بیک وقت چین اور پاکستان کو گھوریاں ڈالنا شروع کر دیں ۔پاکستان کے فوجی ترجمان نے تو یہ تک کہہ دیا کہ پانچ کی بجائے پانچ سورافیل بھی لے آئیں توہم منہ توڑ جواب دیں گے۔ یہ حوصلہ ا ور ہمت آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مرہون منت ہے۔ تاریخ میں حوصلہ مند اور استقامت والے جرنیل کم کم نصیب ہوتے ہیں مگر جنرل قمر باجوہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ دفاع وطن کے لئے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان جس قدرا ٓج بیرونی جارحیت سے اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ تصوتر کرتا ہے؛ ایسا تو خواب و خیال میں بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ سپاہ سالارا ور ان کی بہادر ،شیر دل، ایثار پیشہ افواج کو میرے قلم کا سلام۔
٭…٭…٭