قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
یا خالد جانباز ہے یا حیدرِ کرارؓ
6 ستمبر کا نام آتے ہی لازواول اور عظیم قربانیوں کا نقشہ ذہن میں اتر جاتا ہے جو پاکستان کے غیور عوام اور بہادر افواج نے وطن کے دفاع کے لیے دیں ۔ عدادی برتری کے گھمنڈ میں مبتلا دشمن کے مذموم عزائم کی ناکامی نے پاکستانی قوم کی ثابت قدمی اور جہدِ مسلسل کی خوبیوں کو دنیا بھر میں اجاگر کر دیا ۔38 برس قبل پوری قوم اور افواجِ پاکستان نے یک جاں ہو کر ایمان اتحاد اور نظم کے نصب العین کی پیروی کا شاندار مظاہرہ کیا ۔جس کے نتیجے میں خداوند قدوس نے پوری قوم کی مدد کی نصرت فرمائی۔ اور عرضِ وطن کے دشمنوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔یہ ایک تاریخی معرکہ تھا جس میں ہمت اور حوصلوں کی بیشمار کہانیوں نے جنم لیا ۔پاکستان کا دفاع مسلح افواج کا اولین فریضہ ہے ۔اور اس کی فرض شناسی اور جذبہِ حبْ الوطنی جدید جنگوں کی تاریخ میں درخشندہ مقام پر فائز کی جا سکتی ہے ۔اور ان کا یہی جذبہِ شجاعت تھا جس نے پاکستانی عوام کے ساتھ مل کر اپنے سے 5 گنا بڑے اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کے فاسد ارادوں کو خاک میں ملا دیا ۔
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں ۔
یہ جنگ جو 6 ستمبر سے شروع ہوئی اور 22 ستمبر تک مسلسل 17 دن تک جاری رہی اور اس دوران پوری قوم دشمن کے سامنے سیئہ پلائی ہوئی دیوار بنی رہی ۔جنگ کے آغاز ہی سے پاک فضائیہ بری بے جگری سے لڑی ۔ہمارے شاہینوں نے ثابت کیا کہ وہ کسی بھی ایئر فورس سے کم نہیں ہیں ۔تعداد میں کم ہونے کے باوجود فضائیہ نے جنگ کے پہلے ہی دن سے فضائی برتری حاصل کر لی ۔پاک فضائیہ نے نہ صرف دشمن کے اثاثے تباہ کئے بلکہ پاکستان کے تمام ہوائی اور زمینی اہداف کا بخوبی دفاع بھی کیا ۔ ساتھ ہی ساتھ بری فوج کو بھر پور معاونت بھی مہیا کی گئی ۔ فضائیہ کے فضائی و زمینی عملے نے مشترکہ طور پر مقدس فرائض کی بجا آوری کرتے ہوئے اپنا تن ، من ، دھن قربان کر دیا ۔اپنی شجاعت اور جوانمردی کے باعث پاک فضائیہ کے شاہین صفت جانبازوں سرفراز رفیق ، یونس ، علاوالدین ، اقبال اور ایم ایم عالم کے نام آج بھی ہر پاکستانی کے دل و دماغ پر نقش ہیں
اس دیس کی مٹی میں شہیدوں کا لہو ہے
ہر کام پر بکھری ہوئی محنت کی کہانی
ہر محبِ وطن پاکستانی کے دل میں شجاعت و بہادری کے جوہر دیکھانے کا سب سے بڑا اعزاز پانے والے جاں نثاروں کی یادوں کی خوشبو ہمیشہ کے لیے رچی بسی رہے گی ۔ ان کی بہادری کے عظیم کارناموں نے انہیں دوسری دنیا میں حیاتِ جادواں اور خدائی انعامات و کرامات سے ہمکنار کر دیا
ایک حدیث کے مطابق شہید کا لہو زمین پر گرنے سے پہلے جنّت الفردوس میں پنہچ جاتا ہے ۔ پاک فضائیہ کا ہر فرد اس موقف کی سچائی پر ایمان رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب اس کے لیے لڑتا ہے تو کبھی لغرش نہیں کھاتا ۔اگلے جہاں کی دائمی زندگی پر اس کا ایمان اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ اس کی نظر میں میں دنیاوی زندگی کی نسبت موت اور زیادہ عزیز ہوجاتی ہے نشان حیدر بہادری کا اعلیٰ ترین ترین اعزاز ہے۔جو افواج پاک کے اس سپوت کو دیا جاتا ہے جو زمین ، پانی یا ہوا میں دشمن کے خلاف معرکہ آرائی کرتے ہوئے انتہائی پر خطر حالات میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کہ شجاعت اور بہادری کا بے مثال کارنامہ انجام دیتا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس انتہائی معزز اور باوقار قومی اعزاز دیتے ہوئے کمیشن افسروں ، جونیئر کمیشنڈ افسرز کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی ۔ بشرطیکہ اس کو حاصل کرنے والا خود کو اس کا اہل ثابت کرے ۔ یہ ممتاز اور عظیم الشان اعزاز حاصل کرنے والے شاہ سواروں کی تعداد 10 ہے جن میں سے 4 میجر ، 2 کیپٹن ایک پائلٹ آفیسر اور تین جوان شامل ہیں ۔یہ عزازات پانچ مختلف مواقعوں پر دیے گئے تھے ۔ یعنی 1946، 1958، 1965،1971 اور 1999 پر نشان حیدر کا پہلا اعزاز حاصل کرنے والے دو پنجاب رجمنٹ کے کیپٹن محمّد سرور شہید تھے انہوں نے یہ اعزاز 1948 میں حاصل کیا ۔10 سال بعد 1958 میں12 پنجاب رجمنٹ کے میجر محمد طفیل شہید نے یہ اعزاز حاصل کیا ۔پھر 1965 کے پاک بھارت معرکے میں پنجاب رجمنٹ کے ہی ایک آفیسر میجر عزیز بھٹی کو عطائ کیا گیا ۔چانچہ ہمارے رجمنٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے 1965 تک یکے بعد دیگرے 3 نشانِ حیدر حاصل کئے ۔1971 کی جنگ میں فرنیٹر فورس رجمنٹ کے دو افسروں میجر محمّد اکرم شہید اور میجر شبیر شریف شہید کو یہ اعزاز ملا ۔1971 کی جنگ میں مزید تین جانبازوں کو نشانِ حیدر ملا ان میں پائلٹ آفسر راشد منہاس ، سوار محمد حسین شہید اور لانس نائیک محمد محفوظ شہید شامل ہیں ۔لانس نائیک محمد محفوظ شہید پنجاب رجمنٹ کے چوتھے فرد تھے جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ۔1999 میں معرکہ کار گل کے دوران اپنے اسلاف کی تقلید میں عزم و جرت کا مظاہرہ کرنے والے پاک فوج کے دو بہادر نڈر نوجوانوں ?یپٹن کرنل شیر خان شہید اور حوالدار لالک جان کو یہ اعلی ترین اعزاز دیا گیا ۔ کرنل شیر خان کا تعلق سندھ رجمنٹ سے تھا۔ جبکہ حوالدار لالک جان کا تعلق ناورن لائٹ انفنڈی سے تھا ۔
دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں ڈورا دئیے گھوڑے ہم نے
6ستمبر کا معرکہ کا جدید جنگوں میں کرامت سے کم نہیں تھا۔ یہ دن ہماری قومی تاریخ میں بلاشبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اس کی تاریخی کی اہمیت کو کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری قوم اور دشمن سے تعداد میں کئی گنا کم ہمارے شیر دل جیالے اور دلیر مجاہدوں جن میں غازی اور شہید دونوں شامل ہیں نے جو کارنامے سر انجام دئے وہ ان کی جرت ، قربانی ،عزم اور پاسِ عزت کے جذبے کی عکاسی ہی نہیں بلکہ ہماری جنگی تاریخ کا عظیم باب بھی ہیں ۔ یہ دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ کہ یہ دن قومی یک جہتی کے اس لازوال مظاہرے اور جرت و عظمت کے درخشندہ کارناموں کی یاد تازہ کی جائے ۔ آزادی کو کو برقرار رکھنے قیمت اکثر اوقات حصول آزادی کے لیے ادا کی جانے والی قیمت سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ یوم دفاع دعا پاکستان نامساعد حالات میں ہماری مسلح افواج کی جرات مندانہ جدو جہد کی یاد کا دن ہے ۔درحقیقت6 ستمبر ہماری قومی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتا ہے۔ اور یہ عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہنے والی قومی خوائش کی غمازی کرتا ہے۔ہماری مسلح افواج نے نامساعد حالات میں وطن کا دفاع نا قابلِ تسخیر بنا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان میں عسکری مہارت اور تربیت کے ساتھ ساتھ جذبہِ جہاد اور قوت ایمانی کا ہتھیار سب سے مؤثر اور کاری گر رہا ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمارے چیتا صفت اور عقاب کی نظر رکھنے والے جوانوں اور افسروں کو ایمان کی بے بہا دولت سے نوازا ہے ۔ یہی وجہ ہے ہم سے سے کئی گنا بڑی طاقت کا دشمن بھی ہم سے لرزاں رہتا ہے۔ کیونکہ کہ اسے 6ستمبر کا معرکہ رات سوتے ہوئے بھی بھی یاد رہتا ہے۔ کیونکہ افواج پاکستان کی مہارت بھی قابلِ دید اور قابلِ لائق ہے ۔
اگر ستمبر1965 کی جنگ کے محرکات کا جائزہ لیا جائے تو تاریخ کے اوراق اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں مسلمانوں کے جذبات اس وقت مجروح ہوئے جب کشمیر میں واقع ہے درگاہ سے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کے موئے مبارک اک سازش کے تحت چوری کیے گئے جن کے خلاف ہر طرف زبردست احتجاجی تحریک چلائی گئی اور بھارت اس چال میں تھا کہ پاکستان کوئی کاروائی کرے۔جون 1965 میں سندھ رن کچھ کے علاقے میں پاک بھارت سرحدی جھڑپ ہوئی ۔جس میں پاکستان نے بھارت سے کچھ دلدلی علاقے خالی کرائے جن پر بھارت نے قبضہ کر کہ اپنی ملکیت قائم کی تھی.
اس دوران بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چھاپہ مار کارروائیوں کے بعد بھارت نے پاکستان پر کشمیر میں چھاپہ مار داخل کرنے کا الزام عائد کر دیا ۔ اور گجرات کے نزدیک پاکستان اور کشمیر کی حد پر پر توپ خانہ گولہ باری کی ۔ پاک افواج نے پانچ ستمبر تک اہم کامیابیاں حاصل کیں کشمیر پر اس دباؤ کو ختم کرنے کے لئے بھارت نے 5 اور 6 ستمبر کی کی درمیانی شب کو لاہور، سیالکوٹ اور قصور کے علاقوں میں بین الاقوامی سرحد پر باقاعدہ حملہ کر دیا۔ اس وقت کے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے چھ ستمبر کو گیارہ بجے قوم سے خطاب کیا اور بھارت کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر دیا 17 دن تک یہ جنگ بری ، بحری اور فضائی سطح تک ہوتی رہی اور پاکستان نے کشمیر کے بعض علاقے عبور کر کے ان کو حاصل کرلیا لیکن سلامتی کونسل کے کہنے پر جنگ بند ہوگی اور سابق سوویت یونین یو ایس ایس آر کی دعوت پر پاکستان اور بھارت روس میں تاشقند کے مقام پر بات چیت کرنے پر آمادہ ہو گئے ایوب خان بھارتی وزیراعظم لعل بہادر شاستری کے درمیان صلح کے معاہدے پر دستخط ہوئے دستخط کرنے کے بعد پہلی ہی رات بھارتی وزیراعظم ہم لال بہادر شاستری دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کے مندرجات سے اختلاف کرتے ہوئے نئی جنگ بندی لائن کی ضرورت پر زور دیا اور اس معاہدے کو کو کشمیری عوام اور شہدائے 6 ستمبر کے خون سے غداری کا قرار دیا الغرض آج 38 سال بیت چکے مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے اپوزیشن جماعتیں جشن آزادی کو جشن آزادی نہیں گو مشرف دن کے نام سے منا رہی ہیں اب چھ ستمبر شہدا کی عظمتوں کے اعتراف کا دن ہے اس دن کے عہد کرنا ہے کہ ان شہدائ کی قربانیوں کو مشعل راہ بنا کر وطن عزیز کو امن و انصاف اور عدل و مساوات کا گہوارہ بنا کر دم لیں گے۔ انشاء اللّٰہ
چھ ستمبر… لازوال اور عظیم قربانیوں کا دن
Sep 02, 2021