طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ امریکہ کی شکست افغانستان پر حملہ کرنے والوں کے لئے ایک سبق ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء مکمل ہو گیا ہے۔ ہم دنیا سے اچھے تعلقات اور واشنگٹن کے ساتھ بھی ورکنگ ریلیشن شپ چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز کابل ایئر پورٹ کے رن وے پر میڈیا سے گفتگو اور سکیورٹی پر مامور طالبان کے دستے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان پر مسلط نہیں ہوئے بلکہ ہم عوام کے خادم ہیں ، ہم قوم سے عہد کرتے ہیں کہ اسلامی روایات ، آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کریں گے۔ انہوں نے کہا، ہم نے آزادی حاصل کر لی ہے ۔ ہمیں متعدد چیلنجوں کا سامنا کرنا ہو گا۔ تمام افغان ملک اور مذہب کے لئے متحد ہو جائیں۔
دریں اثناء طالبان ترجمان نے کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایشیائی ممالک میں دراندازی کے لئے مضبوط فوجی اڈہ بنانے افغانستان آیا تھا جس کا ایک مقصد قدرتی وسائل کو لُوٹنا بھی تھا۔ ان کے بقول نئی افغان حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کرے گی۔ امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک ہمیں پہچانیں ، ہم یقین دلاتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ دوسری جانب طالبان نے کابل ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے کے بعد ہوائی فائرنگ کر کے جشن منایا اور نوافل ادا کئے۔ طالبان رہنما انس حقانی نے اپنے ایک ٹویٹ میں تصدیق کی کہ افغانستان پر امریکی اور نیٹو فورسز کا 20 سالہ قبضہ ختم ہو گیا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ امریکی اور نیٹو فوجوں کے ہاتھوں گزشتہ دو دہائیوں سے ادھیڑی ، اجاڑی اور انسانی خون سے رنگین کی جانے والی افغان دھرتی پر آج طالبان کا راج واپس لوٹ آیا ہے جو اب عالمی برادری کے ساتھ امن و سکون سے رہنے اور سازگار تعلقات استوار کرنے کے خواہش مند بھی ہیں جبکہ امریکہ سمیت افغان دھرتی کا حشر نشر اور انسانوں کی تکہ بوٹی کرنے والے اپنے دشمنوں کو بھی وہ آج امن اور خیرسگالی کا پیغام دے رہے ہیں۔ امریکہ تو خود افغان جنگ میں اپنی شکست کا برملا اعتراف کر رہا ہے اور صدر جوبائیڈن افغانستان سے امریکی انخلاء کے عمل کے دوران یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ افغان جنگ پانچویں امریکی صدر تک منتقل نہیں ہونے دینا چاہتے۔ اس تناظر میں اب افغانستان میں امریکہ کی دوبارہ واپسی کا کوئی امکان نظرنہیں آ رہا جبکہ امریکی بیساکھیوں پر کھڑی کابل حکومت کا افغان صدر اشرف غنی نے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے خود ہی ’’تورا بورا‘‘ بنا دیا جس کے بعد مختلف افغان گروپوں کی قیادتوں نے باضابطہ انتقال اقتدار کے لئے باہمی مشاورتی نشستیں کیں جس کے نتیجہ میں آج افغانستان میں عملاً طالبان حکومت کی عملداری قائم ہو چکی ہے جنہوں نے مختلف حکومتی انتظامی امور سنبھال بھی لئے ہیں۔ اس لئے آج دنیا کو افغانستان کی تبدیل شدہ صورتحال کی بنیاد پر اس کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنی پالیسیاں وضع کرنی ہیں۔
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ جہاں طالبان عالمی برادری کے ساتھ پرامن اور خوشگوار ماحول میں رہنے کا عندیہ دے رہے ہیں ، وہیں امریکہ اور دوسرے نیٹو اتحادیوں سمیت مختلف ممالک کی جانب سے بھی طالبان کے مستقبل کے طرزعمل کی بنیاد پر ان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور افغانستان میں امن کی مکمل بحالی کے لئے کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں افغانستان کے امن کے حوالے سے پاکستان کا کردار بلاشبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس پر امریکہ بھی تکیہ کر رہا ہے اور وہ امن عمل میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کا ہاتھ بٹانے کا خواہش مند بھی ہے۔ اس لئے ہمیں بہرصورت طالبان اور بیرونی دنیا کے مابین رابطے کے پُل کا کردار ادا کرنا ہے۔ اس معاملہ پر ہماری قومی خارجہ پالیسی میں کسی قسم کا ابہام اور گومگو والی پالیسی مضرت رساں ہو سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خاں کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ روز اسی تناظر میں افغانستان کی تبدیل شدہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا اور باور کرایا گیا کہ افغان عوام کے لئے ہم جو کر سکتے ہیں وہ کریں گے۔ اجلاس میں یہ خصوصی توقع بھی ظاہر کی گئی کہ افغانستان میں امن و استحکام کا سورج جلد طلوع ہو۔
افغان سرزمین پر امن و استحکام کی ہم سے زیادہ اور کسے ضرورت ہو سکتی ہے کہ سی پیک کا آپریشنل ہونا افغان امن کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ اسی طرح افغانستان میں امن ہماری دھرتی کے امن و استحکام کی بھی ضمانت بنے گا کیونکہ ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کو پہلے کی طرح افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا موقع نہیں مل پائے گا۔ گلبدین حکمت یار سمیت افغان اور طالبان قائدین بھارت کو پہلے ہی وارننگ دے چکے ہیں کہ وہ اب افغان سرزمین پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کا خیال دل سے نکال دے۔ گزشتہ روز طالبان ترجمان کا افغان سرزمین کسی بھی ملک کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کا بیان یقیناً خوش آئند ہے جس سے طالبان کے عالمی برادری کے ساتھ اچھے تعلقاتِ کار کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ افغان جنگ میں امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کو کیا حاصل اور کتنا نقصان ہوا ، یہ اندازہ لگا کر ہی انہوں نے افغانستان سے مکمل اور بحفاظت انخلاء کا فیصلہ کیا تھا اور انہوں نے متعینہ شیڈول کے مطابق اپنا انخلا مکمل بھی کر لیا جس کے بعد اب افغان عوام کی قربانیوں کا اعتراف کر کے امن کی مکمل بحالی کے لئے ان کا ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے ۔ چونکہ افغان عوام کی اکثریت طالبان پر مشتمل ہے جو اس وقت افغانستان میں حکومت سازی کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ اس لئے اب ان کے اقتدار میں روڑے اٹکانے کے بجائے انہیں اقتدار کی مکمل منتقلی کی راہ ہموار کرنا ضروری ہے جن کے طرز حکمرانی سے ان کے حوالے سے تحفظات کا شکار دنیا کو بخوبی علم ہو جائے گا کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ کس انداز میں رہنا چاہتے ہیں۔ افغان امن عمل اور طالبان کو اقتدار کی منتقلی میں رکاوٹیں ڈالنے کی سازشوں میں اگر کوئی ملک ملوث ہو سکتا ہے تو وہ صرف بھارت ہے جو اب اپنے توسیع پسندانہ مقاصد ناکام ہوتے دیکھ کر سخت اضطراب میں ہے اس لئے آج بھارت کو تھپکی دینا علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہو گا۔ عالمی برادری کو افغانستان اور طالبان کے ساتھ تعلقات کے ممکنات کا اسی پیرائے میں جائزہ لینا اور دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا۔