کابل میں وسیع البنیاد حکومت کا شوشہ

امریکہ ویتنام کی شکست سے واپس آیا‘ اس نے ہو چی من اور اس کے گوریلوں سے یہ تقاضہ نہیں کیا تھا کہ وہ امریکہ کے جانے کے بعد وہاں وسیع البنیاد حکومت قائم کریں ۔میرے ایک سوال کے جواب میں یہ نقطہ افتخار سندھو نے اٹھایا ہے جو ایک ڈویلپر ہیں اور ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے چیئرمین ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ملک فتح کیا ہے یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ شکست خوردہ عناصر کو اپنے ساتھ حکومت میں بٹھائیں یا نہ بٹھائیں۔ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب فاتحین نے کسی علاقے کے سابقہ گورنر کو آئندہ بھی اسی عہدے پر برقرار رکھا لیکن جدید تاریخ میںایسی مثال کم ملتی ہے ۔انیس سو اٹھاسی میں پہلی افغان جنگ جیتنے کے بعد امریکہ دڑکی لگا کر علاقے سے بھاگ نکلا اور اسے یہ خیال نہیں آیا کہ اس کے جانے کے بعدجنگجو گروپ ایک دوسرے کا اور ملک کا کیا حال کریں گے ۔افتخار سندھو کہتے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان میں واضح شکست کھائی ہے ،دوحا مذاکرات کی روشنی میں طالبان کو چھ مہینے تک کابل میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی اور امریکی انخلا کے دوران طالبان نے بھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی کہ وہ کابل پر یلغار کردیں ۔انہوں نے شہر کا محاصرہ ضرور کیا لیکن جب دیکھا کہ امریکہ کی کابل حکومت کا وجود باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے شہر میں انتشار پھوٹنے کا خدشہ تھا،وہ مجبور ہوکر کابل میں داخل ہوئے۔
امریکہ نے بیس برس تک طالبان کو دہشت گرد قرار دیے رکھا۔ امریکی آئین کی رو سے کسی دہشت گرد کے ساتھ امریکی حکومت مذاکرات کرنے کی مجاز نہیں ہے لیکن جب دوحا مذاکرات کی میز سجی تو امریکہ کے سامنے طالبان کے نمائندے براجمان تھے۔یہ حرکت امریکی آئین کی کھلی خلاف ورزی تھی ۔مگر مجبوری کا نام شکریہ ۔امریکیوں نے اجتہاد کرلیا ہوگا اور طالبان کو دہشت گرد کی بجائے پر امن گروہ کے طور پر تسلیم کرلیا ہوگا ۔افتخار سندھو کہتے ہیں کہ امریکہ کو دہشت گردی کے فتوے دینے کا بہت شوق لاحق ہے۔انگریزوں نے نیلسن منڈیلا کو دہشت گرد قرار دے کر ساری عمر جیل میں رکھا مگر جب استعمار کی زنجیریں ٹوٹیں اور نیلسن منڈیلا اپنے ملک کا ہیرو بنا تو اس نے دوست دشمن سب کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا ۔اسی دہشت گرد کو دنیانے امن کا نوبل انعام بھی دیا ۔افتخار سندھو نے حافظے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی حریت پسند لیڈر یاسر عرفات بھی ایک زمانے میں دہشت گرد قرار دیا گیا ۔مگر جب یاسر عرفات نے اپنی طاقت کا لوہا منوا لیا تو اسی یاسر عرفات کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کی دعوت بھی دی گئی جہاں اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میرے ایک ہاتھ میں کلاشنکوف ہے اور دوسرے ہاتھ میں زیتون کی شاخ جو امن کی علامت ہے۔ یہ دنیا کی چوائس ہے کہ وہ میرے کس ہاتھ کو تھامتی ہے ۔
 افتخار سندھو کہتے ہیں کہ افغانستان کی بیس سالہ جنگ میں طالبان کو واضح طور پر فتح حاصل ہوئی ہے۔ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی اس کے دشمن تھے اور ہیں ۔مگر شکست کھانے کے بعد نہ جانے وہ کس منہ سے طالبان پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ وسیع البنیاد حکومت تشکیل دیں ۔یہ ایک مبہم اصطلاح ہے اور اس کا کوئی بھی مطلب لیا جاسکتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ طالبان کہیں سے اشرف غنی کو ڈھونڈ کر واپس لائیں اور اپنے ساتھ حکومت میں شامل کریں ۔کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے امریکی کاسا لیسوں کو بھی اقتدار کا حصہ دیا جائے۔کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ تحریک طالبان پاکستان کو بھی حکمران بنا دیا جائے جوکہ امریکی دور میں افغانستان میں پناہ گزین تھی اور وہاں سے پاکستان میں خون کی ندیاں بہاتی رہی ہے،اس مطالبے میں یہ مطلب بھی پنہاں ہوسکتا ہے کہ بھارتی را اور اسرائیل موساد کے ایجنٹوں کو حکومت کے نظم و ضبط میں شامل کیا جائے ۔ایسا کیوںکر ہو سکتا ہے اور طالبان یہ سب مطالبے کیسے ہضم کرلیں گے۔
افتخا رسندھو کہتے ہیںکہ طالبان پر صرف حکومت بنانے کا دبائو نہیں ہے بلکہ انہیں طرز حکومت بھی سکھانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک طرف تو امن و امان کا بڑا چیلنج درپیش ہے ملک کے تباہ حال اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا چیلنج درپیش ہے ۔معیشت کی زبوں حالی کا چیلنج درپیش ہے تو ساتھ ہی طالبان پر شرط عائد کی جارہی ہے ان کی حکومت کو اسی صورت میں تسلیم کیا جائے گا جب وہ خواتین کو بنیادی حقوق دیں گے۔امریکہ اور یورپ میں عورت کی جو عزت ہے وہ سب کے علم میں ہے ۔پاکستان کے اینکروں اور تجزیہ کاروں کو بھی اس وقت شرم آنی چاہئے جب وہ گلہ پھاڑ کرطالبان سے عورتوں کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں ۔یہ اینکر مینار پاکستان کے وحشت ناک مناظر کو بھول گئے ہیں ۔رکشوں میں حوا کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھول گئے ہیں۔ماں اور بیٹی کے ساتھ شیطانی فعل کو بھول گئے ہیں،سیالکوٹ موٹروے پر اجتماعی زیادتی کی واردات کو بھول گئے ہیں اور انہیں یاد ہے تو صرف ایک افغان عورت ‘ وہ اس کے حقوق کے تحفظ کا بلبلا کر مطالبہ کرتے ہیں ۔ افتخار سندھو کہتے ہیں یہ ساری باتیں قبل از وقت ہیں ،افغان صورتحال ہر لمحہ بدل رہی ہے۔ کسی کو آنے والے کل کی کوئی خبر نہیں ہے ،کوئی حکومت بنا بھی پائے گا یا نہیں یہ بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا ۔اس لیے ساری شرطیں عائد کرنے والے مناسب وقت کا انتظار کریں،کوئی حکومت بننے تو دیں اس کے رنگ ڈھنگ دیکھیں اور پھر شوق سے اپنا منہ کھولیں ۔

ای پیپر دی نیشن