میں اس سوچ میں گم ہوں کہ عالم اسلام کے روزافزوں بدلتے حالات کے بارے میں مؤرخ جب کوئی تاریخ رقم کریگا تو اس وقت کی اسلامی نسل امریکہ‘ برطانیہ اور انکے 48 اتحادی ممالک کی افغانستان میں 20 برس تک لڑی جانیوالی خوفناک جنگ میں 15 اگست 2021ء کو طالبان کو حاصل ہونیوالی غیرمعمولی مگر تاریخی کامیابی پر سنہرے حروف سے لکھے ابواب پڑھنے کے بعد اپنے بہادر اور غیور آبا ئو اجداد کے کارناموں کو جو خراج تحسین پیش کریگی وہ تاریخ کا یقیناً ایک یادگار باب ہوگا۔ زندہ قومیں محض بندوق یا اسلحے پر انحصار نہیں کرتیں بلکہ انکے پیش نظر جذبہ شہادت اور جذبۂ ایمانی کی وہ لازوال قوت بھی ہوتی ہے جو انہیں ناقابل تسخیر بنا دیتی ہے۔ یہی وہ جذبہ تھا جو افغانستان پر طالبان کے قبضے کا موجب بنا۔
طالبان نے اپنی سرزمین کے حصول کیلئے 20 برس تک لڑی جنگ میں دنیا سمیت امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک پر یہ ثابت کر دیا کہ ایمانی جنگیں اسلحہ سے زیادہ ایمانی قوت سے لڑی جاتی ہیں۔ طالبان جنہیں نائن الیون کے بعد دہشت گرد اور جن پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگا کر امریکہ نے اعلان جنگ کر دیا‘ طالبان کو وحشی‘ ظالم‘ سنگ دل اور جاہل تک کہا گیا‘ وہ طالبان جنہیں نیٹو افواج نے تورابورا اور گوانتاناموبے کی بدنام زمانہ خوفناک جیلوں میں ڈال کر ان سے انتہائی وحشیانہ اور غیرانسانی سلوک روا رکھا‘ آج ایک آزاد و خودمختار مملکت امارات اسلامی قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ امریکہ اور اسکے 48 اتحادیوں کی افواج نے کبھی یہ سوچا نہ تھا کہ 70 ہزار افغان فوجیوں کی 20 برس تک تمام تر عسکری ضروریات کا بیڑہ اٹھانے‘ 3 لاکھ فوجیوں کو جدید خطوط پر ٹریننگ انہیں جدید ترین اسلحہ سے لیس کرنے اور ان پر ٹریلین ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود افغان فوج طالبان کا جنگی مقابلہ کرنے میں ناکام رہے گی۔ طالبان کے 35 صوبوں سمیت کابل پر مکمل کنٹرول کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ صدر جوبائیڈن کو گو بہت پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا تاہم جوبائیڈن اپنے اس موقف پر ڈٹے رہے کہ طالبان کا کابل اور اسکے گردونواح پر کنٹرول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ افغان افواج مقابلے کیلئے پوری طرح ہے۔ لگتا یوں ہے کہ افغان انٹیلی جنس جسے مبینہ طور پر بھارت نے ٹریننگ دی‘ اس معیار پر پوری نہیں اترپائی جس کی امریکی صدر کو توقع تھی۔ بائیڈن انتظامیہ یقیناً سوچ رہی ہوگی کہ ٹریلین ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی افغان انٹیلی جنس طالبان کیخلاف اپنے اہداف اگر پورے نہیں کر سکی تو اتنی خطیر رقم ضائع کرنے کا آخر کیا فائدہ ہوا؟
تاریخ گواہ ہے کہ افغانستان پر جب بھی کسی صہیونی طاقت نے حملہ کیا بالآخر اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ 1839 میں برطانوی فوجیوں کی 16 ہزار تعداد نے افغانستان پر حملہ کیا مگر کامیابی نہ ہوئی اور 1842ء میں برطانوی سلطنت کو شکست سے دوچار ہونا پڑا اور یوں 1919ء میں برطانیہ کو بالآخر افغانوں کو آزادی دینا پڑی۔ اسی طرح روس نے 1979ء میں حملہ کیا اور دس سال کی طویل جنگ کے بعد واپس جانا پڑا۔ امریکہ نے یہاں 20 سال تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ طالبان کا خاتمہ کیا جا سکے مگر سب تدبیریں ناکام ہو گئیں اور یوں طالبان نے انتہائی مختصر عرصے میں افغان فورسز کو شکست سے دوچار کردیا۔
31؍ اگست کا تاریخی دن گزر چکا ہے۔ طالبان نے اپنی نئی اسلامی حکومت تشکیل دینے کیلئے ہوم ورک گو بہت پہلے سے کرلیا تھا تاہم موجودہ صورتحال اور داعش کے کابل ایئرپورٹ کے قریب کئے دھماکوں سے تادم تحریر ہلاک ہونے والے 180 افراد کے انتہائی افسوسناک واقعہ نے امریکہ سمیت دنیا کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔
دہشت گردی کے اس واقعہ کی طالبان نے بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے امن و استحکام کیلئے خطرناک قرار دیا ہے۔ طالبان نے اس دھماکہ کو انکی پرامن حکمت عملی کو سبوتاژ کرنے کی ایک ناکام کوشش کا نام بھی دیا ہے مگر مغربی دنیا میں داعش کے اس حملے کو بعض باخبر سیاسی حلقے کسی اور تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
جنوبی ایشیائی امور کے ماہر میرے ایک گورے دوست نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارتی لابی کو اتنا آسان مت لیں۔ افغانستان میں بھارت کی تمام تر پالیسیاں چونکہ ناکام ہو گئی ہیں‘ مقبوضہ کشمیر کے نہتے اور بے گناہ افراد پر بھارتی افواج نے پہلے ہی ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اس لئے اب وہ اس کوشش میں ہے کہ افغانستان کے پرامن انتقال اقتدار میں کوئی نہ کوئی ایسی رکاوٹ ڈالے جس سے علاقائی امن پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کابل ایئرپورٹ پر کیا گیا حالیہ دہشت گرد حملہ انہی واقعات کا شاخسانہ ہے۔ گورے دوست نے کہا۔
برطانوی پاکستانیوں کو قوی امید تھی کہ 26 اگست کو ریڈلسٹ ممالک کی فہرست سے پاکستان کو اس مرتبہ یقینی طور پر Amber list میں اس لئے بھی ڈال دیا جائیگا کہ حکومت پاکستان اور ہائی کمیشن لندن کی جانب سے برطانوی حکومت کو مبینہ طور پر دوسری مرتبہ کووِڈ ڈیٹا مہیا کیا جا چکا ہے۔ ہائی کمشنر معظم احمد خان نے اس سلسلہ میں برطانوی پارلیمانی انڈرسیکرٹری برائے ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر لارڈ بیتھل سے پاکستان میں کووِڈ 19کی تازہ ترین صورتحال پر تفصیلی بات چیت کرتے ہوئے ان سے تازہ ڈیٹا بھی شیئر کیا۔ دوسری جانب ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی سیکرٹری آف سٹیٹ برائے خارجہ‘ کامن ویلتھ اور ترقیاتی ڈومینک راب سے بذریعہ ٹیلی فون ریڈلسٹ سے نکالنے کا معاملہ بھی اٹھایا مگر افسوس! صدافسوس! کہ ان تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان کو ریڈ لسٹ سے نہیں نکالا گیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ کووِڈ 19 کی تازہ ترین فگرز میںبھارت دوسرے نمبر پر اور پاکستان 30ویں نمبر پر ہے۔ الٹا 10 روز کا قرنطینہ اور ہوٹل کے اخراجات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ دوستیاں کیا ایسے نبھائی جاتی ہیں؟؟؟
٭…٭…٭