انسداد تمباکو نوشی کے قوانین کی خلاف ورزی تشویشناک حد تک بڑھ گئی

کراچی(کامرس رپورٹر)صحت عامہ کے تحفظ کے لیے پالیسی میکرز سگریٹ پر ٹیکس عائد کرکے اسے مہنگا بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، تاہم ملک بھر میں سگریٹ حکومت کی مقرر کردہ 63 روپے فی پیکٹ قیمت سے کہیں کم پر فروخت کی جارہی ہے۔ ماہرین نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہا کرتے ہوئے انسداد تمباکو نوشی کے قوانین کی خلاف ورزی اور ملک میں غیرقانونی سگریٹ کی فروخت کو حکومت کے لیے چیلنج قرار دیا ہے۔اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ ملک میں سگریٹ کی ڈبیا 20روپے تک کی قیمت پر باآسانی دستیاب ہے اور مارکیٹ میں غیرقانونی طور پر فروخت ہونے والی برانڈز کی بھرمار ہے، یہ رجحان حکومت کی انسداد تمباکونوشی کی پالیسی اور قوانین پر عمل درآمد کی کوششوں کے لیے سوالیہ نشان ہے۔پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن کے ایک مطالعے کے مطابق تحقیق کے لیے مارکیٹ سے جمع کدہ سگریٹ کے 63فیصد پیکٹس 30سے 60روپے میں فروخت کیے جارہے تھے جن میں سے 90 فیصد مقامی سطح پر تیار کیے گئے ہیں۔ماہرین کے مطابق سگریٹ کی مقررہ سرکاری قیمت سے کم پر فروخت کے ساتھ کم عمر افراد ک کھلی سگریٹ کی فروخت بھی کھلے عام جاری ہے۔ سگریٹ کی فروخت سے متعلق قوانین پر عمل درآمد کی حقیقی صورتحال حکومت کی ہیلتھ پالیسی کے ساتھ ایک مذاق ہے۔پاکستان سالانہ 80ارب سگریٹ اسٹکس کی فروخت کے ساتھ 16ایشیائی ملکوں میں غیرقانونی سگریٹ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ پاکستان کی تقریباً نصف مارکیٹ پر غیرقانونی سگریٹ برانڈز کا غلبہ ہے جو کھلم کھلا تمباکو نوشی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہیں۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں سرکاری قیمت سے کم پر سگریٹ کی فروخت تمباکونوشی کے رجحان میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے جس کی وجہ سے سگریٹ کو مہنگا کرکے عوام کی پہنچ سے دور کرنے اور صحت عامہ کو یقینی بنانے کی حکومتی کوششیں بھی رائیگاں ثابت ہورہی ہیں۔کورونا کی عالمی وباء کی وجہ سے نظام تنفس کو لاحق خدشات میں اضافہ ہوا ہے اور سگریٹ نوشی کی وجہ سے ان خدشات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ تمباکونوشی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین اور پالیسیاں مارکیٹ میں غیرقانونی سگریٹ کی بھرمار کی وجہ سے تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیلتھ پالیسی کی راہ میں حائل یہ اہم رکاوٹ حکومت کے ہیلتھ بجٹ میں اضافہ کا بھی سبب بن رہی ہے جس کے لیے موجودہ معاشی حالات میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے وسائل مہیا کرنا دشوار ہے۔وفاقی وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کے مطابق پاکستان میں ہونے والی سالانہ اموات میں غیر وبائی امراض بشمول امراض قلب، فالج، کینسر، ذیابیطس اور پھیپھڑوں کے سنگین امراض کی وجہ سے ہونے والی اموات کا تناسب 68فیصد ہے۔ماہرین صحت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ صحت عامہ کے تحفظ اور نوجوان نسل کو تمباکو نوشی کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے انسداد تمباکونوشی کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانون کو حرکت میں لایا جائے۔

ای پیپر دی نیشن