ندیم بسرا
ملکی سیاست کے رنگ بڑے ہی نرالے ہیں یہاں جو بھی مسند پر اختیار رکھتا ہے وہ حال کو بھول کر ہمیشہ ماضی اور مستقبل کے نقارے بجاتا رہتا ہے۔عمران خان بطور ہیڈ آف سٹیٹ ہوتے ہوئے بھی ماضی کی مثالیں بطور عبرت پیش کرتے رہتے ہیں کہ برے سیاسی لوگوں سے عوام ہاتھ کھینچ لیں کیونکہ اگر ہاتھ نہ پیچھے کیا تو مستقبل میں ان کیلئے وہ سب خواب بن جائے گا۔ہمیں موجودہ پاکستان میں بے شمار چیلنجز درپیش ہیں جن سے نظریں چرانا یقینا ایک بڑی غلطی کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔قومی سطح پرسیاست و اقتدار میں دیکھا جائے تو مختلف انتخابی ادوار کی تاریخ میں پنجاب ہمیشہ سے ہی مرکزی کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے،آبادی اور وسائل کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہونے اور یہاں سے قومی اسمبلی کی کل 272نشستوں میں سے 141 نشستوں کے باعث قومی سیاست میں اسے ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل رہی ہے اور شاید اسی لیے سیاسی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں مسند اقتدار کا فیصلہ پنجاب ہی کرتا ہے۔مرکزی حکومت بھی پنجاب کو بڑی اہمیت دے رہی ہے۔پنجاب جو ملکی ترقی کا آئنہ دار ہے اس میں حکومت کا مضبوط ہونا اور مسائل کا کم ہونا یقینی طور پر باعث مسرت ہوسکتا ہے۔اس وقت پنجاب میں وزیراعلی عثمان بزدار جس طرح مسائل کو کم کرنے کے لئے کوشاں ہیں ان کی نیت پر شک کرنا زیادتی کی بات ہوگی۔اب کیونکہ حکومتی سطح پر فی الحال کوئی پریشانی دکھائی نہیں دیتی۔حکومتی ترجمانوں اور وزراء کا زور زیادہ تر اپوزیشن قیادت پر دشنام طرازی یا انکے ماضی کو لیکر الزام تراشی تک محدود ہے۔وفاقی وزراء میں سے بھی فواد چودھری،شبلی فراز اور شیخ رشید کے علاؤہ کوئی اتنا زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیتا اور یہ وزراء بھی پی ڈی ایم،اپوزیشن کے جلسوں پر بیان بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔پی۔ ڈی ایم نے کراچی کے جلسے سے جو سیاسی انگڑائی لی ہے اس کے غبارے سے انکے بڑے اتحادی ن لیگ کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے قومی حکومت کا بیان دیکر ہوا نکال دی ہے۔اس سے یہی لگ رہا تھا کہ انہوں نے کسی اور کا غصہ کسی اور پر نکالا ہے۔اصل میں تو یہ سیاسی اتحاد پی ٹی آئی حکومت کو چلتا کرنے کیلئے بنایا گیا تھا مگر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے خیر باد کہنے کے بعد اب یہ محض سیاسی تقاریر اور جلسوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ویسے تو اس کی طرف سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان بھی کیا گیاہے مگر ن لیگ کے نئے موقف کے بعد یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی اور اگر ن لیگ کے اندر پیدا شدہ مایوسی یونہی برقرار رہی تو لگتا یہی ہے کہ پی ڈی ایم میں آخر میں صرف مولانا اور ہمنواء رہ جائینگے۔اب اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے بچے کھچے اتحاد پی ڈی ایم اور ملکی سیاست میں نہایت خاموشی اور سرعت سے دوبارہ پروان چڑھتی پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب کو اپنی سیاسی تحریک کا جنکشن بنا نے کی تیاریاں زور شور سے شروع کر دی ہیں۔پی ڈی ایم نے 8ستمبر کو بلائے گئے اجلاس میں عوامی سطح پر جلسے جلوس کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جنوبی پنجاب فتح کرنے کے مشن پر 3ستمبر کو ایک ہفتے کے طویل دورے پر ملتان پہنچ رہے ہیں جہاں وہ وائس چیئرمین اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے انتخابی اضلاع کے علاؤہ پہلی مرتبہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع ڈیرہ غازی خان میں بھی سابق وزیر اعلی پنجاب سردار دوست محمد کھوسہ کی دعوت پر پیپلز پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب کرینگے۔پیپلز پارٹی ان علاقوں کو فتح کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے جہاں سب سے زیادہ دورے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کئے ہیں اور ترقیاتی کاموں کے لئے دل کھول کر فنڈز دئے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کے دورے اس سلسلے کی کڑی ہوسکتے ہیں کہ وہ جنوبی پنجاب کو پی پی کا اہم مرکز بنانا چاہتے ہیں۔بتایا یہی گیا ہے کہ سابق گورنر پنجاب سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ سمیت جنوبی پنجاب کے سیاسی خانوادوں،ن اور ق لیگ سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کی با اثرشخصیات اور الیکٹیبلز کی ایک بڑی تعداد پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کرنے جا رہی ہے جس سے نہ صرف جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی دوبارہ سے متحرک اور فعال ہوتی دکھائی دیتی ہے بلکہ یہ آ نیوالے دنوں میں پنجاب سمیت ملک بھر میں ہونیوالی تبدیلیوں کی شروعات بھی ثابت ہو سکتی ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جنوبی پنجاب کے بعد وسطی پنجاب کے دورے پر بھی تشریف لانے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔آئندہ عام انتخابات یاقبل ازوقت انتخابات کے پیش نظر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنی صوبائی سے ضلع تنظیم نو کا عمل شروع کر دیا ہے ۔بلوچستان اور کے پی کے میں نئی صوبائی قیادت سامنے لانے کے بعد اب وسطی پنجاب کیلئے سابق صدر آصف علی زرداری،بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور نے باہمی صلاح مشورے کرکے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کا صدر نامزد کیا ہے اور وہ آج کل پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں سے مبارکبادیں وصول کرنے میں مصروف ہیں۔ اب پارٹی کی طرف سے وسطی پنجاب کے نئے جنرل سیکرٹری سید حسن مرتضی جنرل سیکرٹری اور شہزاد سعید چیمہ سیکرٹری اطلاعات مقرر کئے گئے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر جمیل سومرو نے اس سلسلے میں با ضابطہ اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب پر نظر دوڑائی جائے یا اس سے وابستہ شخصیات پر نظر دوڑائی جائے تو یہاں پر ایک متحرک،فعال اور میڈیا کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ جنرل سیکرٹری حسن مرتضی بہترین چوائس ہو گی جو موجودہ سیاسی حالات میں پیپلز پارٹی کو نہ صرف وسطی پنجاب میں دوبارہ منظم و متحد بلکہ فعال کر سکتے ہیں بلکہ اسے زندہ دلان لاہور کی اہم سیاسی قوت میں بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وسطی پنجاب تنظیم آ جکل اپنے نئے صدر کے پرجوش استقبال کی تیاریوں میں مگن ہے،پارٹی کے ایک عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ سابق صدر اور دیگر عہدیداروں نے فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی میں مثبت روایات کو پروان چڑھاتے ہوئے وہ نئے صدر راجہ پرویز اشرف اور انکی ٹیم کو لاہور پہنچنے پر خوش آمدید کہے گی جس سے نہ صرف پارٹی میں دور تک ایک مثبت پیغام جائیگا بلکہ اس سے پارٹی کارکنوں میں بھی نیا جوش و جذبہ پیدا ہو گا۔