عربی زبان کے لفظ ” مصیبت “ کے معنی ہیں ”تکلیف، دُکھ، حادثہ ، رنج ، صدمہ ، دشواری اور ”مصیبت زدہ “ کے معنی ہیں ۔ ” بد نصیب، بد بخت، مفلس ، خستہ حال، آفت زدہ “۔معزز قارئین ! 14 جون سے پاکستان کے مختلف صوبوں میں ”سیلاب زدگان“ کو بھی ” آفت زدہ ، مصیبت زدہ “ ہی کہا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا ۔ مرزا داغ دہلوی نے نہ جانے کس موڈ میں اور کس سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ....
”نہیں قتل عشاق سے فائدہ کچھ!
وہ آپی ، مصیبت کے مارے ہُوئے ہیں!
مختلف شعر ا نے ” سیلاب“ کے بارے اپنے اپنے انداز میں کہا ہے کہ ....
”سیلاب اشک ،میری آنکھوں سے پھوٹ نکلا !
کوئی کدھر سے روکے کوئی کدھر سے باندھے !
(غلام علی ہمدانی مصحفی)
”طوفان!“ ” سخت بارش اور پانی کی رَو “ جو ڈبو دے اُسے ”طوفان “ کہا جاتا ہے اور ” طغیانی“ بھی۔ اُستاد شاعر بحر لکھنوی نے کشتی حضرت نوح ؑ کے حوالے سے کہا تھا کہ ....
” کشتی نوح بھی آئے تو، نہ ساحل ہو نصیب!
دِیدہ¿ تر نے کِیا ، تیرے وہ ، طوفاں پیدا ! “
مختلف شعرا طوفان کو اِس طرح زیر بحث لائے ہیں کہ
” تخمینہِ حوادث و طوفان کے ساتھ ساتھ !
بطنِ صدف میں وزن گہر کررہے ہیں ہم !
(رئیس امروہوی)
کیوں ہَوا اس قدر رکی سی ہے !
کوئی طوفان پل رہا ہے کیا؟
(امجد اسلام امجد)
پاکستان کے تازہ ترین سیلاب میں بستیاں ڈوب جانے کے بارے میں کچھ اِس طرح کہا گیا ہے کہ ....
وہ صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں !
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں !
(شیدا(شاگرد سودا)
زیرِ لب آتی ہیں بستیاں دل و جاں کی !
بند ٹوٹ جاتے ہیں بارشوں کے موسم میں !
(روحی کنجاہی)
” محب وطن پاکستانی ! “
ماضی کی طرح جن پاکستانیوں نے ” سیلاب زدگان “ ( مصیبت زدگان ، آفت زدگان ) سے حقیقی طور پر ہمدردی کا عملی ثبوت دِیا ہے اُنہیں محب وطن پاکستانی ہی کہا جاسکتا ہے ، جن میں ریاست پاکستان کے چار "Pillers" (ستون) ”Legislature“ (پارلیمنٹ) ”Executive“ (حکومت) اور ”Judiciary“ ( جج صاحبان) اور ”Media“ (اخبارات اور نشریاتی ادارے)اور ریاست ِ پاکستان کے پانچویں ستون "Military Leadership"(عسکری قیادت)اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ” پاکستان تحریک انصاف “ اور اُس کی اتحادی جماعتوں کے علاوہ ہر وہ فلاحی تنظیم شامل ہے جنہوں نے سیلاب زدگان کی فلاح کے لئے دِن رات ایک کردِیا ہے ۔
” پاکستان دوست ملک! “
معزز قارئین ! پاکستان دوست ملکوں کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی پاکستان کے سیلاب زدگان کیلئے بڑی سنجیدگی اختیار کی ہے، اس کا اعزاز وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قائدین کو دِیاجائے یا دُنیا بھر میں آباد پاکستانیوں کوجو، ہر موقع پر مادرِ وطن کو مضبوط اور طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں لیکن، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ” خُدانخواستہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور حزب اختلاف کی سیاستدانوں میں اتفاق نہ ہو سکا تو، پھر کیا ہوگا؟اور ہاں! یہ بھی نہیںکہا جاسکتا کہ ” کیا عام انتخابات موجودہ سال کے آخر تک ہو سکتے ہیں یا نہیں ؟اور اگر نہ ہُوئے تو پھر کیا ہوگا؟“۔
’شکوہ اور جواب شکوہ !“
معزز قارئین ! ” عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، شاعرِ مشرق علاّمہ محمد اقبال ؒ نے اپنی نظم ” شکوہ “ کے بعد ” جواب شکوہ “ 1913ءمیں انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی جو ، عالم اسلام میں مقبول ہُوئی، اُس کا صرف ایک شعر پیش کر رہا ہُوں ، جسے علامہ صاحب نے عالم اسلام کے حکمرانوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ....
’قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے!
دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کردے !“
شارح مطالب علامہ اقبالؒ ، مولانا غلام رسول مہر ؒ نے شعر کا مفہوم یہ بیان کِیا ہے کہ ” اے مسلمان ! اپنے عشق کی قوت سے ہر پستی کو اوپر لے جا اور اِس دُنیا میں محمد ﷺکے نام مبارک کی روشنی پھیلا دے ! “۔
” خطبہ الہٰ آباد ! “
اس سے قبل علامہ اقبال ؒ نے 1930ءمیں خطبہ الہٰ آباد میں کہا کہ ” برصغیر میں مسلمانوں کیلئے ایک جُدا ریاست ہندوستان کے ساتھ ساتھ اسلام کیلئے بھی انتہائی فائدہ بخش ہے۔ ہندوستان کیلئے یوں کہ اندرونی توازنِ اقتدار کے باعث تحفظ اور امن پیدا ہوگا اور اسلام کےلئے یوں کہ اُسے موقع ملے کہ وہ عرب ملوکِیت سے نجات پا جائے اور اپنے قانون ، تعلیم و ثقافت کو تحریک دے کر انہیں اپنی اصل رُوح سے قریب لے آئے اور روحِ عصر سے ہم آہنگ کردے! “۔
خطبہ¿ الہ آباد کے بعد 28 مئی 1937ءکو علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کے نام اپنے ایک خط میں لِکھا کہ ” مَیں یہ جان کر خوش ہُوا ہُوں کہ آپ اُن باتوں کو پیشِ نظر رکھیں گے جو مَیں نے آپ کو ”آل انڈیا مسلم لیگ “کے آئین اور پروگرام سے متعلق لِکھی تھیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ حالات کی سنگینی سے پوری طرح واقف ہیں۔ جہاں تک اُنکی زد "Muslim India" پر پڑتی ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو بالآخر اِس امر کا فیصلہ کرنا پڑےگا کہ آیا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے محض اوپر کے طبقوں کی نمائندہ جماعت ہے یا مسلمان عوام کی جماعت؟ جنہوں نے ابھی تک معقول وجوہ کی بنا پر اِس میں دلچسپی نہیں لی۔ ذاتی طور پر میرا ایمان ہے کہ کوئی ایسی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی قِسمت کو بہتر بنانے کا وعدہ نہیں کرتی وہ ہمارے عوام کو اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی؟ “۔
”قُلِ ال±عَفو “ معزز قارئین ! قرآن پاک کی ایک آیت ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ”لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ”( اللہ کی راہ میں ) کِس قدر خرچ کریں ؟“ آپ اُنہیں جواب دے دیں کہ ” جتنا تمہارے خرچ سے بچ جائے “۔ 21 اپریل 2019ءکو علاّمہ اقبالؒ کا یوم وِصال منایا گیا ۔ آپ ؒنے شاید مستقبل کے پاکستان کا نقشہ کھینچتے ہُوئے کہا تھا کہ ....
جو حرفِ قُل ِ العَفو، میں پوشیدہ ہے ،اب تک!
اِس دَور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!