اسلام آباد (وقائع نگار) انسداد دہشتگردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن کی عدالت نے دہشتگردی مقدمہ میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے مقدمہ میں شامل نئی دفعات میں بھی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو گرفتاری سے روک دیا۔ عمران خان عدالت پیش نہ ہوئے اور استثنی کی درخواست دی گئی جس ہر عدالت نے کہاکہ عمران خان کو عدالت پیش ہونا پڑے گا۔ بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اسلام آباد پولیس عمران خان کو لکھ کر بھیجتی ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، مجھے گیارہ منٹ بعد دھکم پیل کے بعد عدالت میں داخل ہونے کا موقع ملا تھا۔ عدالت نے کہا کہ ہم اس ضمانت پر آج ہی دلائل سنیں گے۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ پہلے ملزم کو عدالت پیش کریں پھر ہم بحث کریں گے۔ عدالت نے مقدمہ کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ جن کو دھمکی دی گئی اسکا بیان بھی پڑھ کر سنائیں، اس فرض شناس افسر نے اس سے پہلے کتنے دہشتگردی کے مقدمہ کیے ہیں، عمران خان کو کون سا خطرہ ہے وہ بتائیں، جب انہیں ضمانت ملی ہے ، عدالت نے ضمانت دی تو انکا فرض تھا عدالت پیش ہوتے۔ وکیل نے کہاکہ عمران خان تو آنا چاہتے ہیں لیکن پولیس نے انہیں کہا کہ انہیں خطرہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ کیا عمران خان کے خلاف دہشتگردی جرم کے بغیر بھی ایف آئی آر درج ہوئی؟، پولیس کو بتانا ہوگا عمران خان سے کون سی کلاشنکوف اور خودکش جیکٹ برآمد ہوئی۔ بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ میں نئی دفعات شامل کردی گئی ہیں، عمران خان کے خلاف درج دہشتگردی کے مقدمہ میں 506،504،186 اور 188 دفعہ شامل کی گئی ہے، استدعا ہے کہ ان دفعات میں بھی عمران خان کی ضمانت منظور کی جائے۔ عدالت نے کہا کہ ان دفعات میں ہم نوٹس جاری کریں گے۔ دوبارہ سماعت سے قبل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ‘ اسد عمر، علی نواز اعوان، امجد علی خان نیازی، عمر ایوب، کنول شوزب، فیصل جاوید اور دیگر کے ساتھ کمرہ عدالت پہنچ گئے اور سکیورٹی انتظامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ باہر آتے ہی پولیس والے روکتے ہیں اور میڈیا فوٹیج بناتا ہے، عمران خان نے عدالت آنا ہوتا ہے لیکن رستوں کی بندش ہوتی ہے، خار دار تار لگے ہیں۔ عدالت نے فیصل چوہدری ایڈووکیٹ سے کہاکہ آپ سماعت سے ایک دن پہلے لسٹ دیدیا کریں، عدالت نے یہ بھی کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر ہے کسی صحافی کو نہ روکا جائے، اس معاملے کو حل کرتے ہیں مگر رجسٹرار نہیں ہے، اس لیے مسئلہ آرہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ میں پولیس حکام کو ابھی بلا لیتا ہوں لیکن آئندہ سماعت پر اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا دیں گے۔ بعد ازاں سماعت شروع ہونے پر عمران خان اپنے وکیل بابر اعوان ایڈووکیٹ کے ہمراہ عدالت پیش ہوگئے۔ دفعہ 506 کیسے لگائی ہے، بابر اعوان ایڈووکیٹ نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ کوئی دفعہ رہ تو نہیں گئی؟۔ عدالت نے کہاکہ دہشت گردی کے سوا سارے سیکشن قابل ضمانت ہیں۔ بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ دفعہ 186 ناقابل دست اندازی ہے، پولیس عدالت کے احکامات کے بغیر شامل نہیں کر سکتی، اس مقدمے میں دہشتگردی کہاں ہے؟ ایک جملے سے پولیس ڈر گئی؟ یہ پولیس کی تذلیل ہے۔ عدالت نے کہا کہ پولیس ایک ہی مرتبہ فیصلہ کرلے کتنی دفعات لگانی ہیں؟۔ بابر اعوان نے کہا کہ کیا پولیس عمران خان کے ایک جملے سے خوفزدہ ہوگئی، یہ کہتے ہیں پورے ملک میں ایک جملے سے دہشتگردی پھیل گئی، تمام دفعات قابل ضمانت ہیں، کہیں نہیں کہا کہ آگ لگا دوں گا، دہشتگردی کیا ہے ہم بار بار پڑھتے ہیں جیسے مولوی اذان پڑھتے ہیں، کیا عمران خان نے کسی کو جلانے، قتل کرنے کی دھمکی دی ہے؟، ہمارے ساتھی شہید ہوئے ہم نے عدالت نہیں چھوڑی، ہمارے ساتھیوں کی شہادت پر آج تک کچھ نہیں ہوا، مگر سابق وزیر اعظم پر مقدمہ بنایا، عدالت نے آئندہ سماعت پر دلائل طکب کرتے ہوئے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع کردی۔