اسلام آباد(نا مہ نگار)یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے تیس لاکھ سے زائد بچے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار ہیں اور انہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے ۔ یونیسف سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں اور ان کے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔پاکستان میں اس سال مون سون میں شدید بارشوں ، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے3کروڑ 30لاکھ افراد متاثر ہوئے ، جن میں تقریبا ایک کروڑ 60لاکھ بچے بھی شامل ہیں ۔ 350سے زائد بچوں سمیت 1100سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ، 1600زخمی ہوئے، اور 287000سے زیادہ گھر مکمل طور پر اور 662,000 جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ کچھ بڑے دریاں نے اپنے بند توڑ دیے ہیں اور ڈیم گنجائش سے زیادہ بھر چکے ہیں، جس سے گھروں، کھیتوں ، سڑکوں، پلوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور صحت عامہ کی سہولیات سمیت اہم بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔اس موقع پر پاکستان میں یونیسف کے نمائندے عبداللہ فاضل کا کہنا تھاکہ آفات میں بچے ہمیشہ سب سے زیادہ خطرے کا شکار ہوتے ہیں۔اس سیلاب نے پہلے ہی بچوں اور ان کے خاندانوں کو تباہ کن نقصان پہنچایا ہے، اور صورت حال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔ یونیسف حکومت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ متاثرہ بچوں کو جلد از جلد ضروری امداد مل سکے۔ایک تخمینے کے مطابق ، متاثرہ علاقوں میں 30فیصد آبی نظام کو نقصان پہنچاہے، جس سے لوگوں کے کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنے اور غیر محفوظ پانی پینے کی وجہ سے بیماریوں کے پھیلا ئوکا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بارشوں سے آنے والے سیلاب سے ملک بھر کے 154 میں سے 116 اضلاع متاثر ہوئے جبکہ صحت کے کم از کم 888 مراکز کو نقصان پہنچا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ سیلاب میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور 15 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ڈبلیو ایچ او نے مزید کہا کہ 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں، ان میں سے 64 لاکھ افراد کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے جن میں سیلاب سے بے گھر ہونے والے 4 لاکھ 21 ہزار افراد بھی شامل ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 28 اگست تک پاکستان میں صحت کے 888 مراکز کو نقصان پہنچ چکا ہے جن میں سے 180 مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا کہ پاکستان پہلے ہی کرونا سمیت متعدد وباؤں سے لڑ رہا ہے، صحت کی سہولیات کی فراہمی میں رکاوٹ ہوئی تو موجودہ صورتحال میں بیماری کے پھیلاؤ میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں ڈائیریا، ڈینگی بخار، ملیریا، پولیو اور کرونا جیسی بیماریوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافہ خاص طور پر متاثرین کے کیمپوں اور ان علاقوں میں دیکھنے میں آرہا ہے جہاں پانی اور صفائی کی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔ڈبلیو ایچ او نے متاثرہ اضلاع میں موبائل میڈیکل کیمپ بھی فراہم کردئیے ہیں جہاں صاف پانی تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے 17 لاکھ ایکوا ٹیب فراہم کیے گئے ہیں اور متعدی بیماریوں کے نمونوں کی کلینکل جانچ کو یقینی بنانے کیلئے نمونے جمع کرنے کی کٹس فراہم کی گئی ہیں۔