’’جائیں تو جائیں کہاں‘‘ 

میرا یہ شبہ اب یقین میں بدلنا شروع ہوگیا ہے کہ رواں برس کے اپریل میں وطن عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے صدر اب آئندہ انتخاب جیتنا تو کیا اس میں حصہ لینے کی فکر میں بھی مبتلا نہیں رہے۔کسی زمانے میں کبھی کبھار کینیڈا سے اچانک پاکستان درآنے والے ایک موسمی انقلابی ’’سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘ کا نعرہ بلند کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے خواب کو عملی صورت فراہم کرنے میں تاہم ناکام رہے ۔ بالآخر ان دنوں یہ فریضہ شہباز صاحب ہی کو نبھانا پڑرہا ہے۔
گزشتہ ہفتے بہت انتظار کے بعد خبر آئی کہ سفاک ساہوکار کی طرح اپنی تمام شرائط منوانے کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو امدادی رقم کی بھاری بھر کم قسط مہیا کرنے کو رضا مند ہوگیا ہے۔پاکستان یوں دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ممکنہ دیوالیہ سے محفوظ رہنے کے لئے اگرچہ ہماری ہر نوع کی اشرافیہ نے نہیں بلکہ میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے بے تحاشہ گھرانوں نے بجلی،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کی اذیت برداشت کی۔
آئی ایم ایف سے خیر کی خبر آنے کے بعد امید یہ بندھی کہ پاکستانی روپے کی قدر اب امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدرے مستحکم ہونا شروع ہوجائے گی۔متوقع استحکام اس تناظر میں مزید امید افزا محسوس ہوا جو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رحجان نمایاں کررہا تھا۔ان دو حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھ جیسے ذلت واذیت کے مارے پاکستانیوں نے امید باندھ لی کہ ڈالر اور پیٹرول کی قیمت میں نمودار ہونے والا استحکام ہماری روزمرہّ مشکلات میں بھی تھوڑی کمی لائے گا۔بدھ کے دن مگر حکومت نے بجلی کے فی یونٹ نرخ میں مزید اضافے کا اعلان کردیا۔ ابھی وہ اعلان ہضم ہی نہیں کر پائے تھے تو رات گئے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافے کا فیصلہ ہوگیا۔’’ریاست‘‘ کو دیوالیہ سے تحفظ یقینی بنانے کے لئے مجھے اور آپ کو گویا مزید قربانی دینا ہوگی۔اس کے لئے آمادہ نہ ہوئے تو ’’غدار‘‘ پکارے جائیں گے۔
’’غداری‘‘ کی تہمت شوکت ترین جیسے ’’کامیاب بینکاروں‘‘ کا کچھ نہیں بگاڑتی۔ عام پاکستانی پر لگے تو وہ ’’مسنگ پرسن‘‘ نہ بنے تب بھی علی وزیر کی طرح ضمانت سے محروم ہوا کئی مہینوں تک جیل کی سلاخیں گنتا رہتا ہے۔شہباز گل کی طرح ریاستی جبر کا مبینہ طورپر نشانہ ہوا ہیرو تصور نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف سے خیر کی خبر آجانے کے بعد بدھ کے روز ہوئے اعلانات نے امیرمینائی کا وہ شعر یاد دلادیا جو وصل کی رات کو ’’اس قدر مختصر؟‘‘محسوس کرتے ہوئے سینہ کوبی کو مجبور کردیتا ہے۔’’ریاست‘‘ مگر شہباز شریف صاحب کی کارکردگی سے غالباََ خوش ہوگی۔اس کی یہ سوچ ثابت ہوگئی کہ اپنے بڑے بھائی کے مقابلے میں وہ واقعتا ایک بہتر منیجر ہیں۔ڈوبتے یا دیوالیہ ہوتے ہوئے دھندے کو سنبھالنے کی مہارت سے مالا مال۔ اپنے اس کام پر یکسوئی سے توجہ دیتے ہیں۔اس ضمن میں حفیظ شیخ جیسے ٹینکو کریٹ کو بھی مات دے سکتے ہیں۔’’ٹینکوکریٹس‘‘ تاہم عوام کے ووٹوں کے طلب گار نہیں ہوتے۔ شہباز شریف صاحب پر اب بھی مگر ’’سیاستدان‘‘ کی تہمت لگائی جاتی ہے۔اپنے بھائی کے ساتھ مل کر شنید ہے انہوں نے 1985کی دہائی سے نہایت لگن کیساتھ ’’ووٹ بینک‘‘ نامی شے متعارف کروائی تھی۔بدترین حالات میں بھی وہ مستحکم اور پھیلتا چلا گیا۔’’ریاست بچانے‘‘ کی تڑپ میں شہباز صاحب نے اسے قربان کرنے میں چند ماہ بھی نہیں لگائے۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ ہماری ریاست کے کرتا دھرتا ان کی ’’تاریخی قربانی‘‘ کو ہمیشہ یادرکھیں۔
ریاست کے کرتا دھرتا شہباز صاحب کی بے لوث قربانی کی بابت کیا سوچ رہے ہیں اس کے بارے میں اپنے گھر تک محدود ہوا مجھ جیسا قلم گھسیٹ قطعاََ بے خبر ہے۔عمران خان صاحب مگر انہیں معاف کرنے کو اب بھی آمادہ نہیں۔ غضب ناک ہوئے یہ حقیقت دریافت ہی نہیں کر پارہے کہ مسلم لیگ (نون)کے قائد تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات میں بھاری بھر کم اکثریت دلوانے کے عمل میں بنیادی سہولت کار ثابت ہوں گے۔ واجب ہوگا کہ وزیر اعظم کے منصب پر لوٹنے کے بعد عمران خان صاحب اپنی افتتاحی تقریر میں ’’تھینک یو شہباز شریف‘‘ کہتے ہوئے تھوڑی فراخ دلی دکھائیں۔
تحریک انصاف کے قائد کو اگرچہ فراخ دلی دکھانے کی عادت نہیں ہے۔ہماری اعلیٰ ترین عدالت سے صادق وامین قرار دئے جانے کے بعد وہ پاکستان کے یک وتنہا ’’باصفا‘‘ سیاستدان ثابت ہورہے ہیں جو ’’ہارے ہوئے لشکر‘‘ میں گھرے اکیلے بہادر کی طرح ’’چور اور لٹیروں‘‘ کا مقابلہ کررہا ہے۔ریاست کے دائمی اداروں میں گھسے ’’میر جعفر‘‘ بھی اب ان کے طیش کی زد میں ہیں۔ان کے جانثار شہباز گل کو ایک خاتون سیشن جج نے دو دن کا مزید ریمانڈ دیا تو چراغپا ہوگئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کی وجہ سے بدھ کے دن ’’طلبی‘‘ کے مرحلے سے بھی گزرنا پڑا۔کٹہرے میں کھڑے ہونے کی ذلت سے تاہم محفوظ ر ہے۔ان کے وکیل حامد خان صاحب ہی نے عزت مآب ججوں کے دل کو رام کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ان کی وکالت ایک حوالے سے بارآور ثابت ہوئی۔ خان صاحب کو اپنے دفاع کے لئے مناسب الفاظ ڈھونڈنے کے لئے سات دنوں کی مہلت مل گئی۔ جتنا وقت ملا ہے وہ مجھ جیسے شاعری کے ہنر سے پیدائشی محروم شخص سے بھی مناسب سنائی دیتی غزل لکھواسکتا ہے۔عمران خان صاحب کو ذہین ترین وکلاء کی معاونت بھی میسر ہے۔ربّ کریم انہیں آفتوں سے محفوظ رکھے۔طلال چودھری،نہال ہاشمی اور دانیال عزیز جیسا ’’سسٹم‘‘ سے نکالا ’’شودر‘‘ نہ بنائے۔
دریں اثناء مجھے اور آپ کو مزید قربانی کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اس ضمن میں کمرکستے ہوئے خدارا یہ بات بھی ذہن میں رکھیے گا کہ سرما کا موسم نمودار ہونے والا ہے۔گیزر تو عمران خان صاحب کے دو اقتدار ہی میں ’’عیاشی‘‘ ثابت ہوچکا ہے۔اب کی بار ہانڈی پکاتے ہوئے بھی گیس جلانے سے قبل سو بار سوچنا ہوگا۔ کاش ہمارے ہاں کچھ ایسے کھانے ایجاد ہوئے ہوتے جنہیں سورج کی روشنی اور کھلی فضا میں رکھ کر تیار کیا جاسکتا۔شاید وہ ہمیں مختلف ایسی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھتے جو دل اور ہاضمے کے نظام کو تباہ کردیتی ہیں۔یہ سوچتے ہوئے خیال آیا کہ سردیوں میں گاجریں اور مولیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ان پر کالانمک ڈال کرکھائیں تو بہت ’’سواد‘‘ آتا ہے۔ یہ خیال آیا تو پنجابی کا وہ محاورہ بھی یاد آگیاجو پیٹ کے درد کا گاجروں کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔جائیں تو جائیں کہاں؟

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...