اسلام آباد(خبر نگار)وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ پاکستان نے تاریخ میں اتنی بڑی تباہی کبھی نہیں دیکھی، یہ ملک کے لیے انتہائی نازک لمحات ہیں اور ہم تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں اور متاثرین کی مدد اولین ترجیح ہے کیونکہ ہم اپنے لاکھوں لوگوں کی تکلیف سے بخوبی واقف ہیں۔ آفت کی اس گھڑی میں کے ایسے وقت میں ہمیں ذاتی سیاست کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ایک قوم بننے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو سیلابی صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے نو ہفتے ہو چکے اور ایسی تباہی ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی سیلاب سے 33ملین سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہے۔ ان سب کو پناہ، پینے کے لیے پانی، حفظان صحت کی کٹس اور پکا ہوا کھانا چاہیے ہم سول سوسائٹی کے کارکنوں اور مخیر حضرات کے شکر گزار ہیں جو اب بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیںاسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیری رحمان نے کہا ہے کہ ہمیں ہر کسی کی مدد کی ضرورت ہے۔سندھ اور بلوچستان میں بارشیں 30 سال کی اوسط سے تجاوز کر گئی ہیں اور 1191 سے زیادہ جانیں لے چکی ہیں جبکہ 5000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں اور 243 پل تباہ ہو چکے ہیں، اور تقریبا دس لاکھ گھروں کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا ہے۔ شمال بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، دریائے کابل کے راستے سندھ کا پانی بڑھ رہا ہے۔ مختلف مقامات پر دوبارہ تعمیر و بحالی کا کام شروع ہو چکا ہے تاہم بحالی کے عمل کے لیے 10 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ اس وقت سندھ کی فصل تقریبا ختم ہو چکی ہے جبکہ سیلاب نے متاثرہ علاقوں میں تمام بنیادی تباہ کر دیا ہے۔حفظان صحت کے لیے بھرپور انتظامات کیے جا رہے ہیں کیونکہ سیلاب سے متاثرہ افراد کو پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ جلد ہی صحت کی تباہی بن سکتا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اور عطیہ کی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے فوری طور پر آفت سے نمٹنے کے لیے بی آئی ایس پی کی نقد رقم کی منتقلی سمیت امدادی کوششوں کے لیے اپنے فنڈز کو دوبارہ استعمال کیا ہے۔ یہ اب بھی کافی نہیں ہے۔ ہم سب کو اس تباہی کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ شدید بارش کی وجہ سے ہیلی کاپٹروں کو ٹیک آف نہ ہونے دینے کی وجہ سے ایک بڑی ٹھوس امدادی کوششوں میں تاخیر ہوئی۔شوکت ترین کی فون کالز جس میں آئی ایم ایف ڈیل کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی کے بارے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اب بھی ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ذاتی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ لیک ہونے والی آڈیو کالز ایک واضح مثال ہیں اور ابھی تک اس کی تردید بھی نہیں کی گئی۔ پیپلز پارٹی نے بھی جیل کاٹی ہے تاہم یہ قومی مفاد کے ساتھ گھناونی سازش تھی۔ اگر آئی ایم ایف ڈیل نہ ہوتی تو کیا وہ پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف لے جانے کو تیار تھے؟ یہ سیاست ہے کوئی کھیل کا میدان نہیں ہے۔ لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں. آپ کے پاس معاشیات اور صوبائی وسائل کی تقسیم کے مسائل پر بات کرنے کے لیے باضابطہ فورمز موجود ہیں، لیکن ایک ایسے وقت میں جب ملک متعدد بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے، آئی ایم ایف کے ایک اہم معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرنا نا قابلِ قبول عمل ہے ۔سوشل میڈیا پر منفی مہم انتہائی افسوس ناک ہے جب کہ توجہ جہاں تک ہو سکے ریلیف دینے پر ہونی چاہیے۔
شیری رحمان
اسلام آباد(خبرنگار)وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن نے وزارت ماحولیاتی تبدیلی اور یونیسیف کے تعاون سے منعقدہ سی او پی ان مائی سٹی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کے درمیان موسمیاتی مباحثہ اور گفتگو مستقبل کے لیے پائیدار اور موثر ثابت ہوگی۔ماحولیاتی مباحثہ میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ نوجوانوں کو آئندہ COP27 کے لیے تیار دیکھنا خوش آئند ہے جس میں حیاتیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلی پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ نوجوانوں کا ماحول اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق بنیادی ایجنڈوں کی تشکیل میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ہماری نسل کے طرز زندگی میں کاربن کا استعمال غیر معمولی ہے اور آپ اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں تاہم کاربن سے بھرپور عوامل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان انتہائی نازک وقت کے دہانے پر کھڑا ہے جس کا براہ راست تعلق ماحولیاتی تبدیلی اور اس سے مرتب ہونے والے اثرات سے ہے۔ملک میں سیلاب کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاکستانی ساتھی المناک سیلاب میں پھنس گئے ہیں جو پاکستان نے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ سیلاب آفت سے کم نہیں اور اس نے بڑی تعداد میں آبادی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سیلابی صورتحال کے باعث ہمارے ملک کا 70 فیصد حصہ ڈوب چکا ہے۔ ہمارے ہیلی کاپٹر خشکی کی کمی کی وجہ متاثرہ علاقوں میں نہیں پہنچ سکے اور آخر کار ہمیں پاک بحریہ کی خدمات کو بروئے کار لانا پڑا۔ لیکن سیلابی ریلے نے ہماری خشک زمینوں کو 10 فٹ تک گہرے سیلابی پانی میں ڈبو دیا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے قومی سلامتی کا چیلنج ہے کیونکہ یہ ہماری جی ڈی پی کے 9.1 فیصد کو متاثر کرتا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ افرا پناہ اور خوراک کی تلاش میں ہے۔ ہم اپنے تمام وسائل استعمال کر رہے ہیں لیکن وہ اس بحران کا سامنا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈیزاسٹر رسک میپنگ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں درپیش خطرات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ہمیں نئے خطرات کے پیش نظر امدادی کوششوں سمیت ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ متاثرہ علاقوں میں زمین پر موجود افراد اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں اور آسمان کے نیچے مدد کے منتظر ہیں۔ 5000 کلومیٹر تک سڑکیں مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں جبکہ 243 پل تباہ ہو چکے ہیں۔ ہم ایک انتہائی نازک لمحے میں ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کو پس کرنا آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ہے۔ ہمیں تقسیم کرنے والی سیاست کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم اپنے وسائل کو پوری طرح استعمال نہیں کر پائیں گے اور ہمیں اپنے ملک کی خاطر متحد ہونا ہو گا۔ ہم سب اس میں ایک ساتھ متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے وسائل کو اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق استعمال کرنا ہو گا۔ترقیاتی کاموں میں دیگر شراکت داروں کو سراہتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ انسانیت کو جدید طرز زندگی کی طرف لانا ہو گا۔ ہمارے پاس سب سے بڑے گلیشیئرز ہیں اور ان کے پگھلنے کا پاکستان کے اقدامات سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ہم گلوبل وارمنگ کا ایک فیصد سے بھی کم کا ذمیدار ہیں۔ ہر ایک کو پاکستان کی مدد کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔