اپنے حصہ کی شمع روشن کرتے جائیں

  مہمان کالم …عبدالخطیب چوہدری
khateeb@gmail.com
پانچ برس قبل جولائی 2018ء میں حج بیت اللہ کی سعادت کا اعزاز حاصل ہوا حج کے تنتالیس دن  میں جہاں دنیا بھر کے مسلمانوں کی ثقافت کے بارے میں پتہ چلا وہاں پاکستان سے روزگار کے لیے جانیوالے پاکستانیوں خاص کر محنت کشوںکے بارے میں بہت کچھ دیکھنے سننے کو ملا۔ ہماری رہائش گاہ مسجد الحرام سے تقریبا دس سے پندرہ کلومیٹر دور عزیزیہ کے مقام پر تھی ۔ مسجد الحرام میں باجماعت نماز کے ادائیگی کے لیے بیس سے پچیس منٹ کا سفر بس کا کرنا پڑتا تھا بسوں کی مختلف مختص روٹس سے آمدو رفت تھی سفر کے دوران پہاڑوں کے دامن میں بلند و بالا خوبصورت پلازے اور عمارتیں نظر اتی وہاں  ایشائی ممالک سے تعلق رکھنے والے مزدور بھی تپتی اور کڑاکتی دھوپ میں کام   نظر آتے تو دل میں عجیب سے اداسی و پشمانی ہوتی ہے کہ اگر ان مزدوروں کو اپنے ملک میں روزگار کی سہولیات فراہم ہوں تو ان بھائیوں کو اپنے پیاروں سے دور سخت مزدوری نہ پڑتی چونکہ میں خود ایک چھوٹا سا کاروبار چلا رہا ہوںاور ایک مزدور خاندان سے تعلق ہونے کے ناتے سے مزدوری کے بارے میں زیادہ احساس رکھتا ہوں ۔ان مزدوروں کی حالت دیکھ کر مجھے خٰیال آیا کہ پاکستان میں آجر بے روز گاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مزدور کومعاوضہ کم ادا کرتا ہے یہی وجہ ہے مزدور زیادہ معاوضہ کی خاطر سات سمندر پار میں آکر  سخت گرمی میںکھلے  آسمان تلے کام مجبور ہے اگر ان کو کام کی نوعیت کی مناسبت سے مزدوری سے دی جائے تو کوئی شک نہیں وہ اپنے علاقہ میں کام کرنے کو ترجیح دیںگے اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے  اپنے حصے کا دیا جلانے کا ارادہ کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے چودہ اگست کو اپنے پاس کام کرنے والوں کی مزدوروں کی اجرت میں پچاس فیصد اضافہ کرنے کی خوشخبری کا اعلان کیا۔ بے شک مزدوروں کے دلوں سے بھی نیک دعائیں نکلی ہوں گی یقینا اس سے کاروبار میں بھی برکت آئی ہوگی۔ واپسی پر جب مزدور بھائی حج کی مبارکباد دے رہے تھے ان کی چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں نظر آرہے تھے ان میں سے کچھ مزدور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی اپنی ضروریات اور ذاتی وجوہات کی بناء پر ادھر سے کام چھوڑ گئے تھے ان میں سے ایک مزدور بھائی نے گزشتہ رات دس بجے فون کیا تو مجھے محسوس وہ کافی پریشانی کا شکار ہیں کچھ کہنا چاہا رہے ہیں لیکن ان کی زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی میں نے پریشانی کی وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن کچھ بھی اظہار نہ کرسکے صرف یہ کہا کہ  صبح اپ سے ملنا چاہتا ہوں اگر اپ مناسب سمجھیں تو اجاوں میری ہاں پر اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کال منقطح کردی جب میں صبح دفتر میں پہنچا تو وہ مجھے پہلے ہی موجود تھے میں خیرو عافیت پوچھنے کے بعد ان پسینے سے شرابور چہرے پر پریشانی کے بارے میں پوچھاتو گویا ہوئے کہ  آج بجلی کے بل کی اخری تاریخ ہے گزشتہ دو ماہ سے بل ادا نہ ہوسکنے کی وجہ سے کنکشن کاٹنے کا نوٹس آیا ہوا ہے اس لیے پریشانی کے عالم میں اپ کے پاس حاضر ہوا ہوں بجلی منقطع  ہونے کی صورت  ہم  چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گرمی میں تو گزارہ کرلینگے لیکن  موٹر نہ چلنے سے گھر کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا  اپ برائے مہربانی بل کے لیے رقم ادا کردیں جب تک قرض ختم نہیں ہوتا آپ کے ہاں ہی پاس مزدوری کرونگا میرے استفسار پر کہ بل کتنا ہے تو انہوں کہ تین ماہ کا ملا کر  بیس ہزار کے قریب ہوگیا ہے میں پہلے مہینے کا بل جمع نہ کروانے کے بارے میں پوچھا تو تمحید باندھتے ہوئے کہا کہ ٓاپ کو علم ہی ہے کہ میں سخت مزدوری کرتا ہوں میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے بھی میری طرح مزدور ہی بنیں  وہ ماشااللہ تینوں پاس ہوگئے تھے ان کے لیے کتابیں یونی فارم اوردیگر لوازمات پورے کرنے تھے میرے پاس فالتو رقم بھی نہ تھی خود بھوک برداشت کرکے ان  سکولوںکی فیس و دیگر معاملات کو کلیر پایا جس کی وجہ سے بل کی ادائیگی ہونے سے رہ گئی تھی اگلے میں مذید زیادہ اور اب تو ادا کرنے کی سکت ہی ختم ہوگئی ہے مہنگائی سے مزدوری بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی گھر میں فاقوں کی صورت حال بنی ہوئی ہے ۔  بجلی کیبل سے سکون برباد ہوچکا ہے بلکہ جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں یہ ایک مزدور کی کہانی نہیں ہے بلکہ اج ہر گھر اس  طرح کی صورتحال کا شکار ہوچکا ہے اگر کسی کے پاس آٹا خریدنے کے پیسے ہیں تو گھی کی سکت نہیں بچوں کی فیس کریں تو گیس بجلی اور پانی کے بل کی ادائیگی رہ جاتی ہے ہر جانب کمپرسی کی حالت ہے گزشتہ چند برسوں میں وطن میں لاقانونیت کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے ڈالر کی اڑان اور پٹرولیم مضنوعات  مہنگی ہونے کو جواز بناء پر کاروباری طبقہ فیکٹری مالکان نے ریاست کے اندر ریاست بناء پر قیمتوں میں من مانے اضافہ کرنا شروع کررکھا ہے بیوروکریسی اپنے مراعات کے لیے جدو جہد میں مصروف جبکہ سیاستدان نے عوام کی فکر کرنے کی بجائے کرسی کے حصول کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مزدور تو درکنار ملازمت پیشہ افراد کے گھروں میں بھی فاقوں کی صورت حال پیدا ہوچکی ہے جس سے تنگ آکرشہری جرائم پیشہ عناصر کا حصہ بننے پر مجبور ہورہے ہیں چوری ڈکیتی و راہزنی کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے مہنگائی بے روزگاری کو قابو پانے کے لیے ہر باشعور وبااختیار شہری ہر طبقہ فکر کو اپنے حصہ کا دیا جلانا ہوگا

ای پیپر دی نیشن