اگر آدمی کے پاس مال کم ہو تو اس سے بہت سی تکالیف اور ذلت اٹھانی پڑتی ہے اور مال میں کثرت کی وجہ سے انسان مختلف فتنوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس لیے اسلام ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے یعنی صرف اتنا مال رکھو جس سے آپ کی ضرورت پوری ہو جائے اور جو مال بچ جائے اسے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کر دیں۔ ایسا کرنے سے انسان کی دنیا اورآخرت مال کے فتنوں سے محفوظ رہے گی۔
مال ودولت اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے کیونکہ اس کے بغیر ہمارے لیے زندگی کی گزر اوقات نا ممکن ہے۔ مگر مال کی کثرت اللہ تعالی سے غفلت پیدا کرتی ہے اور آدمی بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔اس لیے صوفیا ئ کرام نے اللہ کا راستہ اختیار کرنے کے لیے مال کی کثرت کے فتنوں سے بچنے پر بہت زور دیا ہے۔ جب آدمی کے پاس زیادہ مال آجاتا ہے تو کسی نہ کسی بات سے انسان اصل راہ سے اتر ہی جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
’’ مگر وہ فتنہ مال کی گھاٹی سے نہ گزرا۔تمہیں کیا معلوم کہ وہ مشکل گھاٹی کیا ہے۔ کسی گردن کو غلامی سے آزاد کرانا یا فاقے کے وقت کھانا کھلانا رشتہ دار یتیم کو ، یا خاک نشین مسکین کو ‘‘۔ (سورۃ البلد)
ایک دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے ’’ اے ایمان والو ! تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں‘‘۔ ( سورۃ التکاثر)
مال اور اولاد یاد الہی سے غفلت کا باعث بنتی ہے اس لیے اولاد کی طرف حد سے زیادہ الفت کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ایسے ہی زیادہ ما ل و دولت انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کر دیتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے :’’ کثرت کے لالچ نے تجھے برباد کر دیا یہاں تک کہ قبرستان جا پہنچے۔ پس عنقریب جان لو گے ‘‘۔ دنیا کے ما ل و دولت کو بڑھانے کے لالچ میں انسان نیک اعمال کرنے سے غافل ہو گیا ہے اور ما ل و دولت اکٹھا کرنے میں اتنا مگن ہو جا تا ہے موت کو بھول جاتا ہے اور آخر کار انسان قبر میں پہنچ جاتا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
’’ ہر عیب اور غیبت والے کے لیے خرابی ہے۔ جس نے مال جمع کیا اور گِن گِن کر رکھا۔ خیال کرتا ہے ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا ‘‘۔ (سورۃ ہمزہ)حضرت کعب بن عیاض رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ : ہر امت کے لیے آزمائش کی کوئی چیز ہوتی ہے اور میری امت کی آزمائش کی چیز مال ہے ‘‘۔