نگران حکومت نے اپنے اقتدار کے تیسرے ہفتے کے دوران بھی عوام پر پٹرولیم بم چلا کر انہیں قبرستان کی جانب دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس پر مستزاد یہ کہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں بڑھنے والی مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ ہی نظر نہیں آرہی جس پر انکے بقول پہیہ جام ہڑتال کی جائے۔ انہوں نے گزشتہ روز باور کرایا کہ بجلی کا بل تو دینا ہی پڑیگا کیونکہ ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے پورے کرنے ہیں۔ انکی جانب سے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا عندیہ اگست‘ ستمبر کے 400 سو سے زیادہ یونٹ والے بلوں کی قسطوں میں وصولی کا دیا گیا جو ریلیف کے بجائے متعلقہ صارفین پر مزید بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔
ملک کے ہرشعبہ زندگی کے لوگ بجلی کے جاری کئے گئے ہوشربا بلوں کیخلاف ابھی سراپا احتجاج ہیں اور آج 2 ستمبر کو بعض سیاسی جماعتوں اور تاجر تنظیموں کی کال پر ملک بھر میں ہڑتال بھی کی جارہی ہے مگر حکومت کی جانب سے عوام کو طفل تسلی دیتے دیتے گزرے مہینے کی آخری رات پٹرولیم بم چلا کر انہیں مزید نڈھال کردیا گیا جس سے عوام میں مزید اشتعال پیدا ہونا بھی فطری امر ہے۔ حکومت کی جانب سے رات گئے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول کے نرخوں میں فی لٹر مزید 14 روپے 91 پیسے کا اضافہ کیا گیا جس کے باعث پٹرول کی قیمت فی لٹر تین سو روپے سے بھی آگے چلی گئی اور ملک میں پہلی بار پٹرول 305 روپے فی لٹر ہو گیا جبکہ ڈیزل کے نرخوں میں فی لٹر 18.44 روپے مزید اضافہ ہونے سے ڈیزل کے نئے نرخ 311 روپے 84 پیسے مقرر ہوئے۔ پٹرولیم مصنوعات پر آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق عائد کردہ لیوی کی شرح پانچ روپے بڑھا کر 55 روپے سے 60 روپے تک پہنچا دی گئی ہے۔ اس وقت پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا جواز تیل کے عالمی نرخوں میں اضافے والا پیش نہیں کیا جا سکتا کیونکہ عالمی مارکیٹ میں گزشتہ پانچ ماہ سے خام تیل کی قیمت 80 سے 88 ڈالر فی بیرل کے درمیان چل رہی ہے۔ گزشتہ روز بھی عالمی مارکیٹ میں خام تیل کے نرخ 83.81 ڈالر فی بیرل تھے جو گزشتہ ماہ کے نرخوں سے ایک ڈالر کم ہیں جبکہ عالمی نرخوں کے جاری کئے گئے چارٹ کے مطابق آئندہ ماہ اکتوبر میں بھی تیل کے یہی نرخ برقرار رہیں گے۔ اگر اسکے باوجود پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مسلسل بڑھائے جارہے ہیں تو اس کا پس منظر آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے ہی ہیں جنہیں ہر صورت پایہ تکمیل کو پہنچانے کا نگران حکومت کو ٹارگٹ دیا گیا ہے چنانچہ نگران سیٹ اپ تشکیل پاتے ہی پہلا کام پٹرولیم نرخوں میں فی لٹر 20 روپے تک اضافے کا کیا گیا۔ اگلے ہفتے بجلی کے نرخ فی یونٹ 65, 64 روپے تک پہنچا کر عوام کو مہنگائی کے نئے سونامیوں کی جانب دھکیلا گیا اور اب اپنے اقتدار کا ایک مہینہ پورا ہونے سے پہلے عوام پر پھر پٹرول بم چلا دیا گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں جیسی ریاست پر حکمرانی کرنیوالے منتخب یا نگران اہل اقتدار کو عوام کے گھمبیر سے گھمبیر تر ہونیوالے روٹی روزگار اور غربت‘ مہنگائی کے مسائل کا کیوں ذرہ برابر بھی احساس نہیں؟ ریاست کے نمائندے کی حیثیت سے اگر ہماری اب تک کی کسی بھی حکومت کو عوام کیلئے فلاحی ریاست کے آئینی تقاضے پورے کرنے کا احساس نہیں ہوا اور انہیں مسائل کے دلدل کی جانب ہی دھکیلا جاتا رہا ہے تو عوام اپنی آئینی ذمہ داریوں سے بھی خوش اسلوبی کے ساتھ کیونکر عہدہ برا ہو سکتے ہیں۔ افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں امیر اور غریب طبقات کے مابین خلیج مزید گہری ہورہی ہے اور خطِ غربت کے نیچے کی انسانی آبادی سرعت کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ملک چاہے جس بھی آزمائش سے گزر رہا ہو‘ ملک کی معیشت چاہے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے‘ باوسیلہ مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ طبقات کی بودوباش میں کوئی کمی آتی ہے نہ یہ طبقات ملک کی خاطر اپنی مراعات کی معمولی سی بھی قربانی دینے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اسکے برعکس حکومتی انتظامی اتھارٹی کا سارا زور بے بس و لاچار غریب عوام پر ہی استعمال ہوتا ہے جنہیں براہ راست اور بالواسطہ انواع و اقسام کے ٹیکسوں کے بوجھ تلے بھی دبایا جاتا ہے اور پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس‘ پانی اور جان بچانے والی ادویات تک کے نرخ بھی انکی پہنچ سے دور کر دیئے جاتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ڈالر کے نرخ بڑھنے سے اٹھنے والے مہنگائی کے طوفان بھی عام آدمی کی کمر ہی دہری کرتے ہیں چنانچہ آج بے وسیلہ عوام ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کی عملی تصویر بنے زندہ درگور ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جن کی ماں جیسی ریاست میں کوئی شنوائی بھی نہیں ہو رہی۔
جب ملک کے حکمران عوام کے روزمرہ کے مسائل سے بے نیاز ہو جائیں اور انہیں انتہاء درجے کی غربت سے دوچار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور پھر انکی غربت کا مذاق اڑتے بھی نظر آئیں تو انکے پاس مزاحمت کرنے یا خود کو موت کی وادی کی جانب لے جانے کے سوا اور کیا راستہ بچے گا۔ ایسے بے انتہاء دکھوں اور لاچاری میں گھرے خاندانوں کے خاندان آج سوگ میں ڈوبے نظر آتے ہیں جہاں بھوک اور فاقہ کشی کا راج ہوگا تو وہ اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کیلئے بالآخر چھینا جھپٹی تک ہی آپہنچیں گے۔ آج ملک میں جس تیزی کے ساتھ سماجی برائیاں اور جرائم بڑھتے نظر آرہے ہیں‘ عوام کے بڑھتے اقتصادی مسائل ہی اس کا بنیادی سبب ہے۔ حکمرانوں کو عوامی مایوسیوں اور محرومیوں کو اس نہج تک نہیں لے جانا چاہیے کہ وہ تنگ آمد بجنگ آمد پر اتر آئیں۔ آج حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں ملک کو خانہ جنگی کی جانب ہی دھکیلا جارہا ہے جس کے انجام سے بالخصوص حکمران اشرافیہ طبقات کو آگاہ ہونا چاہیے۔