عمران خان کی جیل کی کنجی کس کے پاس ہے؟

Sep 02, 2024

’کپتان‘ تو اپنے مداحین کی نگاہ میں اب بھی’ڈٹ‘ کے کھڑے ہیں۔ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ کو مگر انھوں نے ’آئین بچانے‘ کی خاطر حکومت سے مذاکرات کا اختیار دے دیا ہے۔ ’حکومت‘ کا ذکر چلا تو میرے جھکی ذہن میں فوراً یہ سوال اٹھا کہ ’کون سی حکومت‘؟
شہباز شریف کی سربراہی میں جو حکومت ہمیں ان دنوں وفاق میں نظر آرہی ہے تحریک انصاف اور اس کے حامی اسے ’فارم47‘ کی بنیاد پر بنائی حکومت پکارتے ہیں۔ مصرہیں کہ ’فارم45‘ میں مرتب ہوئے نتائج ہی 8فروری2024ء کے روز پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچے عوام کے جذبات کے حقیقی ترجمان تھے۔ ’فارم47‘ نے ان جذبات کا احترام نہیں کیا۔ آئین اگرچہ بچانا ہے تو ’فارم 45‘ کے ذریعے ظاہر ہوئی مبینہ یا حقیقی عوامی رائے پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ ایسا ہوگیا تو تحریک انصاف موجودہ قومی اسمبلی میں کم ازکم 180نشستوں پر کامیاب تصور ہوگی۔ اس کی ’حقیقی‘ تعداد کا اعتراف کرلیا جائے تو موجودہ قومی اسمبلی میں بھاری بھر کم اکثریت کی حامل ہوتے ہوئے تحریک انصاف کو شہباز شریف کی جگہ اپنی صفوں میں سے کسی صاحب یا صاحبہ کو وزیراعظم کے عہدے پر نامزد کرنا ہوگا۔ جو بھی نامزد ہوا یقینی طورپر ’عبوری وزیراعظم‘ ہی تصور ہوگا۔ کیونکہ حکومت سنبھالتے ہی تحریک انصاف کی صفوں سے نامزد ہوئے وزیراعظم کو اڈیالہ جیل کا پھاٹک کھول کر وہاں مقید عمران خان کو جیل سے باہر نکالنا پڑے گا۔ وہ باہر نکلے تو چند ہی ہفتوں میں فاسٹ ٹریک پر لی پیش قدمیوں کی بدولت تحریک انصاف کے بانی کو ضمنی انتخابات کے ذریعے قومی اسمبلی میں لایا جاسکتا ہے۔ وہ ایوان بالا تک پہنچ گئے تو اگلی منزل وزیراعظم کا دفتر ہوگا۔ و ہ اس منصب پر دوبارہ فائز ہوگئے تو آئین نہ صرف بچ جائے گا بلکہ اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوجائے گا۔ آئین بچالینے کے بعد شاید وزیراعظم کے منصب پر لوٹے خان صاحب اپنے مخالفین کو دریا دلی سے معاف کردیں گے۔ یوں ہم تم ہوں گے بادل ہوگا اور رقص میں سارا جنگل ہوگا۔
آئین بچانے اور ملک سنوارنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کی گفتگو فقط تحریک انصاف کے حلقوں ہی سے نہیں چلائی گئی۔ محمود خان اچکزئی نے بھی اپنی جانب سے مذکورہ اطلاع کو مصدقہ بتایا ہے۔ ان کی تصدیق کو مزید قوت اس اجلاس نے بھی فراہم کردی ہے جو مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی صدارت میں ہفتے کے روز لاہور میں ہوا ہے۔ اس کے اختتام پر ’ذرائع‘ یہ دعویٰ کرتے سنائی دیے کہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف بھی سیاسی جماعتوں کے مابین مذاکرات کے حامی ہیں۔ ان کی جماعت کے دو سینئر ترین رہ نما احسن اقبال اور خواجہ آصف مگر تحریک انصاف پر اعتبار کو تیار نہیں۔ مصر ہیں کہ عمران خان 9مئی 2023ء کے واقعات کی ذمہ داری لیتے ہوئے معافی کے طلب گار ہوں اور آئندہ نیک چال چلن کا وعدہ فرمائیں۔ نظر بظاہر نواز شریف صاحب نے خاموش رہتے ہوئے ان کی بات مان لی ہے۔ اس کے بعد تحریک انصاف سے مذاکرات کی خواہش محض خواہش تک ہی محدود ہوئی نظر آرہی ہے۔ اگر مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھنے کا تصور درست ہے تو میں گوشہ نشین یہ فرض کرنے کو مجبور ہوں کہ آئین کو ’تحفظ‘ فراہم کرنے کا بندوبست نہیں ہوپایا ہے۔ غریب کی جورو کی طرح یہ زورآوروں کی ’بھابھی‘ ہی رہے گا۔
’فارم47‘ کی بدولت قائم ہوئی حکومت کے ساتھ بالآخر ’آئین‘ کے تحفظ کی خاطر رضا مند ہوئی تحریک انصاف کے جواں سال مداحین مجھ جیسے بڈھے صحافیوں کو ریٹائر ہونے کے مشورے دیتے ہیں۔ مجھ ایسے لوگوں کے خیالات یقینا’فرسودہ‘ ہوں گے۔ جن اصولوں کی پاسداری کے گماں میں مبتلا تھے ان کے تحفظ کو اب بھی کسی نہ کسی صورت ڈٹے رہنے کی ہمت دکھاہی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ’انقلابی‘ تو مٹی کے مادھونظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے محبوب قائد کو جیل میں گئے صرف ایک سال گزرا ہے۔ ’فارم47‘ کی مدد سے بنی حکومت سے مذاکرات کے لیے مگر انھیں رضا مند کرلیا گیا ہے۔ ’تو کمزور تھا تو لڑی کیوں تھا‘ والا فقرہ یاد آرہا ہے۔
نوخیز دوشیزائوں کی طرح محلے کے تھڑوں پر بیٹھے ’بڈھوں‘ کو طعنے دیتے ’انقلابیوں‘ سے دست بستہ فریاد ہے کہ سوشل میڈیا سے وقت نکال کر کبھی کبھار ایک آدھ کتاب بھی پڑھ لیا کریں۔ اس مشق سے گزریں گے تو جلد ہی دریافت کرلیں گے کہ وطن عزیز کا المیہ فقط یہ نہیں کہ تاریخ یہاں خود کو دیگر ممالک کے مقابلے میں کثرت سے دہراتی ہے۔ ہمارا المیہ زیادہ سنگین اس لیے ہے کیونکہ’تاریخ دہراتے‘ کردار بھی نہیں بدلتے۔
ذاتی طورپر میں محمود خان اچکزئی کا بہت احترام کرتا ہوں۔ وہ ایک مثالی طورپر ثابت قدم باپ کے فرزند ہیں جن کی تقریباً ساری عمر جیلوں میں گزری۔ ان کی اصول پسندی ہی ان کے قتل کا سبب ہوئی جس کے ڈانڈے میری دانست میں افغانستان میں سردار دائود کی حکومت کے زمانے میں اپنائی پالیسیوں سے بھی ملتے تھے۔ ذاتی تعلق کی تفصیل میں الجھے بغیر 1990ء کی دہائی میں لوٹ جاتے ہیں۔ اس دہائی کا آغاز ہوتے ہی ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو کرپشن کے سنگین الزامات لگاتے ہوئے گھر بھیج دیا تھا۔ ان کی جگہ نئے انتخابات کے نتیجے میں نوازشریف وزیر اعظم کے دفتر پہنچے۔ غلام اسحاق خان کی بطور صدر معیاد عہدہ 1993ء میں ختم ہونا تھی۔ 1992ء کا سال مگر ختم ہورہا تھا اور لاہور سے آیا وزیر اعظم غلام اسحاق خان کو یہ اعتماد دلانے کی زحمت ہی نہیںاٹھارہا تھا کہ وہ سول اور فوجی اشرافیہ کے ’بابا‘کہلاتے اسحاق خان ہی کو ایوان صدر میں مقیم رہنے کو ترجیح دیں گے۔ اس سے قبل اگست 1991ء میں نواز شریف نے نہایت ہوشیاری سے اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد آصف نواز جنجوعہ مرحوم کو آرمی چیف بھی بنوالیا تھا۔ غلام اسحاق خان کو بتدریج شبہ ہونا شروع ہوا کہ لاہور سے آیا وزیر اعظم ’خودمختار‘ ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ اسے قابو میں رکھنے کے لیے لہٰذا محلاتی سازشوں کے مہاکلاکار غلام اسحاق خان نے پیپلز پارٹی سے روابط بڑھانا شروع کردیے۔ فاروق لغاری اور آفتاب شیر پائو صاحب کے ساتھ ’پشتون‘ واسطوں سے رابطے ہوئے۔ جہلم کے چودھری الطاف حسین شریف الدین پیرزادہ کے ذریعے ایوان صدر کے پھیرے لگانے لگے۔
 سازشوں کے اس دور میں محمود خان اچکزئی نے پشتون قوم پرست ہوتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے چند سرکردہ ایم این ایز کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جمہوری نظام کی بقاء اگر واقعتا مقصود ہے تو پیپلز پارٹی کو طویل المدت مفادات ذہن میں رکھتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے کوئی راہ نکالنا ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے ان دنوں نہایت فعال افتخار گیلانی نے ان کا ڈٹ کر ساتھ دیا۔ سندھ سے ایم این ایز کا ایک گروپ بھی اس خیال کا حامی ہوگیا۔ آصف علی زرداری مگر ان دنوں جیل میں تھے اور ان کے سیل کی ’کنجی‘ نواز شریف نہیں غلام اسحاق خان کے ہاتھ میں تھی۔ اب کی بار جیل میں تحریک انصاف کے قائد بند ہیں اور ’کنجی‘ ان کی بیرک کی بھی موجودہ وزیر اعظم کے ہاتھ میں نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ اتنا یاد دلانے کے بعد مجھے کچھ اور لکھنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں