صوبہ بلوچستان میں مٹھی بھر دہشت گرد تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں نے بدامنی اور انتشار کو فروغ دے رکھا ہے۔حالیہ حملوں میں ان درندوں نے جس طرح نہتے شہریوں،خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔تشدد کا اندھا دھند استعمال کی یہ حکمت عملی جنگی اور انسانی حقوق کے قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ان دہشت گردوں نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف بلوچستان اور بلوچ قوم کے دشمن ہیں بلکہ وہ انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔اللہ تعالیٰ ایسے افراد کو سخت نہ پسند فرماتا ہے جو اس کی مخلوق کو تکالیف میں مبتلا کرتے ہیں۔سورۃ المائدہ آیت 33میں ارشاد ربانی ہے۔’’اللہ کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلانے والے اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمن ہیں گویا ایسے فسادی لوگ مخلوق سے ہی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ؐ سے بھی پیکار جنگ ہوتے ہیں۔بدامنی،فتنہ فساد پھیلانے والوں کے لیے دنیامیں بھی سزا رکھی گئی ہے اور آخرت میں بھی ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا‘‘الحمدللہ!بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے حملوں میں سیکورٹی فورسز کی جوابی کاروائی میں تمام دہشت گرد جہنم کا ایندھن بن چکے ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات منیارہ نور مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔فرمان مصطفیؐ ہے کہ ’’انسان اللہ کا کنبہ ہیں اور اللہ کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ وہ محبوب ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے‘‘(مشکوۃ)ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے کہ ’’جس شخص نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا‘‘ اور جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔یاد رکھیے گا کہ ان دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا یہ صرف دہشت گرد ہوتے ہیں۔آج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے غیور بلوچ قوم کوہر خوف وخطر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متحد ہونا ہوگا ریاست اور ریاستی اداروں کا ساتھ دینا ہوگا کیونکہ اتحاد کی طاقت سے ہم اندرونی وبیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جاری اس میں جنگ میں نوجوانوں کو اپنابھرپور کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی،فتح وشکست میں نوجوانوں کااہم کردار ہوتا ہے۔ہرانقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یااقتصادی،معاشرتی سطح کا ہو یا ملکی سطح کا سبھی میدانوں نوجوانوں کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اسی لیے آج تعلیم یافتہ نوجوان ان دہشت گرد تنظیموں کا نشانہ ہیں جس کا تفصیلی ذکر میں اپنے گذشتہ کالم میں کرچکا ہوں۔آج نوجوان نسل کو سب سے زیادہ توجہ اپنی تعلیم پر دینا ہوگی کیونکہ ’’قلم‘‘تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کی تعلیم کی شرح کیا ہے۔کیونکہ پڑھے لکھے لوگ ہی ایک صحت مند اور باشعور معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کالجز اور یونیورسٹیز سطح پر دہشت گردی کے نقصانات کے موضوع پر سمینارکااہتمام کریں اور سوشل میڈیا پر انجان لوگوں سے گفتگوکرنے سے پرہیز کریں،اور اپنے ارد گرد ماحول پر نظر رکھیں کوئی مشکوک سرگرمی نظر آنے کی صورت میں ملک محافظ اداروں سے رابطہ کریں۔غیوربلوچ عوام ان مشکل حالات کا ہمت سے مقابلہ کریں اور مایوس نہ ہوں،بہت جلد یہ مٹھی بھر دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے۔کیونکہ اب ریاست اور ریاستی اداروں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے، اب ریاست کی طرف سے خواتین کے پیچھے چھپ کر دہشت گردی کرنے والوں کو کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔ان مٹھی بھر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں نے’’مسنگ پرسن‘‘کے نام پر بلوچ عوام کو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کے ذریعے بہت گمراہ کیاہے۔ان ملک دشمن عناصر نے نوجوانوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر ہتھیار پکڑا دئیے ہیں اور انہیں عام شہریوں سے دہشت گرد بنا دیا ہے۔یاد رکھیے گا کہ فرد،ادارے اور قوم کی زندگی میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں،کٹھن حالات اور مشکلات اگر چہ پر خار اور پر خطر قومی سفر کے لازمی حصے ہیں لیکن یہ چیلنجز وقتی اور عارضی ہوتے ہیں۔ہمیں ناامید اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ہم نے نوجوانوں کی شراکت سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم مضبوط اعصاب کے مالک ہیں،ہم خطرات مول لینے کی شاندار تاریخ رکھتے ہیں،ہم ہر قسم کے بحرانوں سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب ہم نئے جذبہ وولولہ کے ساتھ ایک روشن اورخود مختار مستقبل کے لیے پرعزم قوم ہیں۔ریاست اب یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ ملک دشمنوں سے کوئی بات نہیں ہوگی،دہشت گردی کو ختم کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔دہشت گرووں کے لیے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے،اس سلسلے میں دی گئی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔دہشت گردوں کا مقصد پاکستان میں خلفشار پیدا کرنا ہے،اور بلوچستان میں اس کی ترقی کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں رخنہ ڈالنا ہے۔افواج پاکستان کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر بار بار برملا کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کو پاک سرزمین پر دوبارہ قدم جمانے کا موقع ہرگز نہیں دیا جائے گا۔اس امر میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ پاک فوج کے بہادر سپوتوں نے ہر موقعے پر جرات کے ساتھ دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا ہے۔ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے۔اب وقت آچکا ہے کہ قوم 1965ء والے جذبے کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں ریاست اور پاک فوج کا ساتھ دے،یاد ہوگا کہ کس طرح پاکستانی افواج نے پاکستانی قوم کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے اپنے ملک کی سرحدوں کا بھرپور دفاع کیاتھا اور اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن کو شکست فاش سے دوچار کیا۔اس جنگ کے دوران پوری قوم کا جذبہ قابل تعریف رہا،ہمیں آج ایک بار پھر انہیں جذبوں کی ضرورت ہے۔الحمدللہ دہشت گردی کے خلاف جاری اس جنگ میں ہم فتخ یاب ہوچکے ہیں۔دشمن اپنی چالوں میں بری طرح ناکام ہوا ہے، بلوچستان اس وقت امن و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے۔غیوربلوچ عوام نے ان دہشت گرد تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کو مسترد کردیا ہے کیونکہ انہیں واضح ہوچکا ہے کہ یہ لوگ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔بلوچ عوام کل بھی پاکستان سے محبت کرتی تھی،آج بھی کرتی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔مٹھی بھر دہشت گرد ان کے دلوں سے وطن کی محبت نہیں نکال سکتے۔آخر میں دہشت گردی کی اس جنگ میں قربانیاں دینے والے پاک فوج اور بالخصوص ایف سی بلوچستان (ساؤتھ)اور دیگر فورسز کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے ہمارے کل پر اپنا آج قربان کردیا۔