دشمنی کی طویل کہانی

Sep 02, 2024

شہباز اکمل جندران

لاہور زندہ دلوں کا شہر ہے۔ لیکن اسی شہر میں کئی ایسی دشمنیاں بھی پروان چرْھیں جن سے بہت سے گھر اْجڑ ے نسل در نسل بھی دشمنیوں کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوسکا۔ اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق درجنوں افراد ان دشمنیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ 
لاہور کا مشہور شاہ عالم چوک اور لاہور ہی کی گنجان آبادی والا علاقہ گوالمنڈی اپنی بہت سی دیرینہ دشمنیوں کی قدیم آماجگاہیں ہیں۔ یہ دونوں علاقے دشمنی کی کئی بھیانک اور المناک داستانیں اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں۔
چوک شاہ عالم اور گوالمنڈی میں دو ایسے دشمن دار کشمیری گھرانے دہائیوں سے آباد ہیں جو اپنی دشمنی کی وجہ سے بین الصوبائی شہرت کے حامل ہیں۔ ان میں امیر عارف عرف بلا ٹرکاں والا نصف صدی قبل اپنے آبائو اجداد کے ہمراہ چوک شاہ عالم کے نزدیک ایک قدیم عمارت میں اقامت پذیر ہوا اور گڈز جیسے بڑے کاروبار سے منسلک ہو گیا۔ جبکہ کشمیری گھرانے کے ہی دو سگے بھائیوں گوگی بٹ اور طیفی بٹ نے خاندان کے ہمراہ گوالمنڈی میں سکونت اختیار کی۔ دونوں خاندانوں میں علاقے کی چودھراہٹ پر جھگڑے کا آغاز ہوا پھر یہ رقابت اتنی بڑھی کہ بہت سے افراد کو نگل گئی۔
امیر عارف عرف بلا ٹرکاں والا بہت سال ہوئے قتل ہو گئے۔ گوگی اور طیفی بٹ نے امیر عارف کا قتل اْسی کے ذاتی گن مین حنیف عرف بابا حنیفا کے ذریعے کرایا۔ جس کا پرچہ گوگی بٹ اور طیفی بٹ کے خلاف درج ہوا۔ لیکن عدم ثبوت کی بناء پر دونوں بھائی عدالت سے بری ہو گئے۔ جس کا مقتول کے بیٹے امیر ٹیپو کو بہت رنج تھا۔ گوگی اور طیفی جانتے تھے کہ ٹیپو زندہ رہا تو اْن سے اپنے مقتول باپ کا بدلہ ضرور لے گا۔ لہٰذا انہوں نے امیر ٹیپو کے قتل کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔وہ اْس کے معمولات پر گہری نظر رکھنے لگے۔ ’’ریکی‘‘ کے لیے ایک خاص آدمی مقرر کر دیا۔ اسی دوران گوگی اور طیفی کو امیر ٹیپو کے دبئی جانے کا پتہ چلا ۔ جس فلائٹ سے امیر ٹیپو کی واپسی تھی، گوگی اور طیفی اس سے مکمل آگاہ تھے۔ 
دبئی سے آنے والی فلائٹ نے لاہو ر ایئرپورٹ پر لینڈ کیا تو گوگی کا شوٹر پہلے ہی سے ایئرپورٹ کی پارکنگ میں موجود تھا۔ جیسے ہی ٹیپو ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر آیا، شوٹر نے ٹارگٹ کر لیا۔ کئی گولیاں ٹیپو کے بدن کے آرپار ہو گئیں۔ وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ پارکنگ میں بھگدڑ مچ گئی جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شوٹر ساتھیوں سمیت بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ بعدازاں وقوعہ کا مقدمہ گوگی، طیفی اور نامعلوم شوٹر کے خلاف تھانہ سرور روڈ لاہور کینٹ میں درج ہو ا۔ مقدمے کا ٹرائل ہوا تو گوگی اور طیفی شوٹر سمیت اس کیس سے بھی صاف بری ہو گئے۔ 
حال ہی میں قتل ہونے والا امیر بالاج، ٹیپو کا بڑا بیٹا تھا۔ انتہائی شریف اور نیک سیرت۔ گھر کے باہر سرکلر روڈ کے بے شمار ریڑھی بان اور چھوٹے دکاندار بالاج کو اپنا مسیحا سمجھتے تھے کیونکہ وہ اْن کی ہمیشہ مالی مدد کیا کرتا تھا۔ وہ اْن کی ضرورتیں پوری کرتا اور اْن سے دعائیں لیتا۔ امیر بالاج کا قتل ہم دونوں خاندانوں کی اندھی دشمنی کا شاخسانہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کیس کا اہم کردار احسن شاہ بظاہر بالاج کا دوست تھا لیکن پیسے کے لالچ میں گوگی اور طیفی سے مل گیا۔ اْن سے خفیہ ملاقات کرتا، باور کراتا کہ اْن کا ہمدرد ہے۔ بالاج کے خلاف یہ پروپیگنڈا کرتا کہ باپ دادا کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔ شوٹر کے ذریعے واردات ڈال سکتا ہے۔ اس کے برعکس بالاج کی ایسی سوچ نہیں تھی ۔ ہمیشہ دوستوں اور بہی خواہوں میں صلح کی بات کرتا۔ گوگی اور طیفی بٹ سے اپنے خاندان کی دیرینہ دشمنی ختم کر کے صلح کا حامی اور خواہش مند تھا۔ لیکن احسن آستین کاسانپ بن گیا۔ گوگی اور طیفی کو بالاج کے خلاف بھڑکاتا کہ اپنا تحفظ کر لیں ورنہ بالاج انہیں مار دے گا۔ اس پروپیگنڈے نے گوگی اور طیفی کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بالاج کا راستے سے ہٹ جانا ہی اُن کی زندگی کی ضمانت ہے۔ اس کے بعد دونوں بھائیوں نے امیر بالاج کے قتل کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ احسن شاہ کو پیش کش کی کہ اگر وہ بالاج کے قتل میں مدد فراہم کرے گا تو اس کے عوض وہ اُسے دو کروڑ دینے کو تیار ہیں۔دو کروڑ کا سن کر احسن شاہ، گوگی اور طیفی کی مدد کے لیے تیار ہو گیا۔ اْس نے آمادگی ظاہر کی کہ بالاج کی نقل و حرکت سے متعلق انہیں آگاہ کرتا رہے گا۔ بیعانے کی رقم پچاس لاکھ بھی وصول کر لی۔
وقوعہ سے ایک روز پہلے احسن نے گوگی کو اطلاع دی کہ بالاج ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی عار ف بلا کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے چوہنگ کے قریب واقع ایک نجی ہائوسنگ سوسائٹی میں جانے والا ہے۔ بالاج کے قتل کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہو گا۔ وقوعہ کے روز بالاج، ڈرائیور، دو گن مینوں اور احسن شاہ کے ہمراہ شادی میں شرکت کے لیے گھر سے روانہ ہونے لگا تو احسن شاہ نے یہ اطلاع گوگی کو فراہم کر دی۔ پہلے سے طے تھا کہ اجرتی قاتل تقریب کے دوران امیر بالاج کو ٹارگٹ کرے گا۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق امیر بالاج جیسے ہی شادی کے پنڈال میں داخل ہوا، شوٹر بھی بھیڑ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تک پہنچ گیا۔ تقریب ابھی جاری تھی کہ گولیوں کی آواز یں آنے لگیں۔ شوٹر بالاج پر یکے بعد دیگرے سیدھے فائر کر رہا تھا۔اْس نے پستول کا پورا میگزین خالی کر دیا تاکہ بالاج کے بچنے کی ذرا سی بھی امیدباقی نہ رہے۔ ایک گولی تو بالاج کی آنکھ کوچیرتی ہوئی دماغ تک پہنچ گئی۔امیربالاج کی موت موقع پر ہی واقع ہو گئی۔ جبکہ بالاج کے گن میں نے شوٹر کو بھی ہلاک کر دیا۔
وقوعہ کی اطلاع ملتے ہی مقامی تھانے کی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور فوری تفتیش کا آغاز کر دیا۔ امیر بالاج عام نوجوان نہیں تھا۔ اس لیے اطلاع فراہم ہوتے ہی پولیس کے اعلیٰ افسران، فرانزک اور جیو فینسنگ کی ٹیمیں بھی کچھ ہی دیر میں جائے وقوعہ پر پہنچ چکی تھیں۔ اس دوران احسن شاہ کی مشکوک حرکات و سکنات کو دیکھ کر پولیس نے اندازہ لگایا کہ وقوعہ میں احسن کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اْسے حراست میںلے کر پوچھ گچھ کی تو وقوعہ کی گتھیاں سلجھنا شروع ہو گئیں۔ موقع پر موجود جیو فینسگ کی ٹیم نے جب انکشاف کیا کہ وقوعہ سے پہلے اور بعد میں بھی احسن کسی سے مسلسل رابطے میں تھا تو متعلقہ نمبر کو ٹریس کیا گیا  جب معلوم ہوا کہ یہ طیفی بٹ کا نمبر ہے توساری پکچر واضح  ہو گئی۔ پولیس نے مقتول کے بھائی امیر معصب کی مدعیت میں گوگی بٹ، طیفی بٹ، شوٹر اور احسن شاہ کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کر لیا جس میں تمام ملزمان کو نامزد کیا گیا۔
شوٹر تو موقع پر ہی مارا گیا تھا جبکہ گوگی اور طیفی مفرور ہو گئے۔ احسن شاہ گرفتا ہونے کے بعد ریمانڈ اور تفتیش مکمل ہونے پر کوٹ لکھپت جیل چلا گیا۔ جہاں اُس نے والدہ اور اہلیہ سے آخری ملاقات کی، اْسے جیل سے آرگنائزڈ کرائم یونٹ اقبال ٹائون لایا گیا۔ جہاں ڈی ایس پی جہانگیر بٹ احسن شاہ کا منتظر  تھا۔ احسن نے جیل میں ہی ملاقات کے دوران والدہ اور اہلیہ کو بتا دیا تھا کہ اُس کے لیے فوری کچھ کریں کیونکہ پولیس اُسے مقابلے میں مارنا چاہتی ہے۔
پھر احسن کی یہ بات درست ثابت ہوئی۔ ڈی ایس پی جہانگیر بٹ اور سب انسپکٹر شکیل بٹ، جو جعلی مقابلوں کے لیے مشہور ہیں، احسن اْن کی کسٹڈی میں آیا تو اُسے یقین ہو گیا کہ پولیس اْسے اب جعلی مقابلے میں مار دے گی۔ پولیس کے اپنے بیان کے مطابق وہ ملزم احسن شاہ کو تھانہ ’’شاد باغ‘‘ میں درج ایک مقدمہ کے سلسلے میں ریکوری کے لیے لے کر جا رہی تھی کہ احسن کے بھائی علی رضا نے احسن شاہ کو پولیس کی کسٹڈی سے چھڑانے کے لیے فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس ملازمین خوش قسمتی سے بچ گئے ، تاہم ایک فائر احسن شاہ کو لگا، مضروب حالات میں اُسے پولیس ہسپتال لے کر جا رہی تھی کہ ملزم نے راستے میں ہی دم توڑ گیا۔
یہ وہ کہانی ہے جو ہر مبینہ پولیس مقابلے کے بعد ہمیشہ پولیس کی جانب سے بنائی اور سنائی جاتی ہے۔ اگرچہ احسن شاہ کا جرم بڑا ہے۔ اس لیے ہلاکت پر کوئی سخت عوامی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ عمومی رائے یہی سامنے آئی کہ احسن شاہ کے ساتھ جو ہوا، اچھا ہوا۔ ایسا تو ہونا ہی تھا۔  اسی کو تو  مکافاتِ عمل کہتے ہیں۔

مزیدخبریں