مقام شکر ہے !! بابا کرمو کے چھوٹے بھائی بابا نیکو بھی لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہو چکے۔ کل قدم بوسی کیلئے گیا تو کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا آخرانسان انسان کا دشمن کیوں ہے؟ پھر یہ واقعہ سنایا کہ ایک عربی غیر ملکی ائیرلائین کی پرواز سے لاہور ائیرپورٹ پر اترا ہے۔ وہ وہیل چیئرپر تھا ،چند پاکستانی ائیرپورٹ پر خوش آمدید کہنے کیلئے موجود تھے۔ باہر ایمبولینس کھڑی تھی۔ جس کے زریعے معزور مسافر کو نامعلم منزل کی طرف لے جایا گیا۔ کچھ دیر بعدایمبولینس بڑے ہوٹل کی پارکنگ میں رکتی ہے جہاں عربی مہمان کیلئے کمرہ پہلے بک تھا۔ میزبان گروپ میں ایک ا مترجم بھی ہوتا ہے جو الگ کمرے میں رہائش اختیار کرلیتا ہے۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسیز جب عربی مسافرکو ائیرپورٹ سے وہیل چیئرپر باہر آتے دیکھتی ہیں تو انہیں کچھ شک گزرتا ہے کہ یہ مہمان بزنس کے سلسلے میں آیا ہے نہ ہی یہ سیاح ہے۔ ایف آئی اے، آئی بی کے افسران اس کا پیچھا کرتے ہیں تو پارکنگ میں ایمبولینس انکے شک کو مزید تقویت دیتی ہے۔ایف آئی اے اس سعودی شہری پراپنی نگرانی سخت کردیتی ہے۔ موبائل فون کے ڈیٹا کے سے پتہ چلا کہ یہ صاحب پاکستان میں گردہ تبدیل کروانے آئے ہیں اورایک بین الاقوامی گروہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر گردوں کی فروخت کا غیر قانونی کاروبار کررہا ہے۔
اب میں منظر کو تھوڑا سا بدلتے ہوئے آپ کو پیر محل کے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں لئے چلتے ہیں جہاں پر ڈاکٹر سفید گاؤن پہنے مسیحا کے روپ میں موجود ہیں یہاں سینکڑوں مریض آتے ہیں۔ صحت کا شعبہ پنجاب میں بہت ہی پیچھے ہے جسکی وجہ سے پیر محل، سندھیلیانوالی اور قرب و جوار کے غریب لوگوں کے لیے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔سعودی شہری کی اگلی منزل کوئی بڑا ہسپتال نہیں بلکہ اہسپتال کے ساتھ موجود ایک خالی کوٹھی ہے جس کے متعدد کمروں کو آپریشن تھیٹر میں تبدیل کیا گیا ہے۔ اب ہسپتال میں نیفرالوجسٹ ( ماہر امراض گردہ ) کی سربراہی میں معالجین معاون عملہ کی مدد سے غیر ملکیوں کی غیر قانونی گردے ٹرانسپلانٹ کررہے تھے۔ یہ گھناؤنا کاروبار بڑے عرصے سے چل رہا تھا کہا جاتا ہے جسے سابق گورنر پنجاب کے یہ دو سگے بھانجے چلا رہے تھے۔اس فعل کا سب سے گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ جو عورتیں زچگی کے لئیے میڈیکل کمپلیکس میں آتی تھیں توگائنا کالوجسٹ ( ماہرامراض نسواں ) سب سے پہلے مریضہ کے خون کا گروپ ٹیسٹ کرواتی اور دیگر گردوں کے ٹیسٹ کرواتی۔ پھر یہ رپورٹ ان کے دو بھائیوں کو بھیج دی جاتی۔ یہ انٹرنیٹ پر گردوں کے منتظرمریضوں سے ڈیٹا کو ملاتے۔ زچگی کے لئیے آنے والی خاتون کے علم میں لائے بغیر اس کے ایک گردے کا سودا ایک کروڑ روپے میں طے کرالتیے۔ غیر ملکی جسے گردے کی ضرورت ہوتی تو مریضہ کوایک دو دن پہلے بلوا لیتے، عین زچگی کے دن ڈاکٹر آپریشن کرتے اور ساتھ ہی نومولود کی ماں کا گردہ بھی نکال لیتے۔ زچگی کا آپریشن کروانے آنے والی خاتون کو علاج میں سہولتیں دیتے اور بہت ہی کم پیسے لیتے۔ وہ غریب خاندان ان ضمیر فرشوں کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر دعائیں دیتے!!۔وہ سوچتے کہ اگر یہی ( بڑا ) آپریشن کسی اور جگہ ہوتا تو کم از کم پچاس ہزار روپے خرچ ہوتے جبکہ ان نیک دل لوگوں نے پانچ ہزار بھی نہیں لگنے دئیے۔ وہ غریب عورت اپنے گردے کے نکالے جانے سے لاعلم رہتی ہے یوں ہر ملنے والے سے میڈیکل کمپلیکس کی تعریفیں کرتی۔ یہ بے ضمیر لوگ ایک کروڑ روپیہ اپنی جیبوں میں بھر کر پارسائی کا لبادہ اوڑھنے میں مشغول رہتے۔یہ تو وہ سلوک تھا جو زچگی کے لئے آنے والی خواتین کے ساتھ ہوتا تھا۔ ظلم یہ بھی کیا جاتا کہ مختلف ایجنٹوں سے رابطہ کیا جاتا انہیں ڈیمانڈ بتائی جاتی کہ اس خون کے گروپ کا گردہ چاہیے۔ وہ دلال جرائم پیشہ لوگ ہوتے تھے جوغریب مریض کو میڈیکل کمپلیکس میں لے آتے جہاں ڈاکٹر اس کا گردہ نکال لیتے یا کبھی غربت کے ہاتھوں مجبور ان لوگوں کی مجبوریوں کا سودا کرتے اور انہیں پچاس سے نوے ہزار روپے تھما دیتے…یہ واقعہ 13 اکتوبر 2023کا ہے جب ایف آئی اے کو مخبر نے اطلاع دی کہ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کو ساتھ لیا پولیس اور انتظامیہ کے افسران کو ساتھ لیا . میڈیکل کمپلیکس کے ساتھ ملحقہ کوٹھی پر چھاپہ مارا تو وہاں پر معالجین آپریشن تھیٹر کی ٹیم کے ساتھ موجود تھے انکا ٹارگٹ عورت کا گردہ نکال کر ٹرانسپلانٹ کررہا تھا۔ ایف آئی اے کی ٹیم کو دیکھ کر ڈاکٹر اور عملہ گھبرا گیا اور آپریشن ادھورا تھا ایف آئی اے ٹیم نے کہا کہ پہلے پروسیجر مکمل کریں۔ ڈاکٹرز کے ہاتھ کانپنے لگے اور وہ بار بار کہتے رہے کہ اب کام نہیں ہورہا۔ یہ کیسا معالج ہے جو مسیحا کے روپ میں شیطان تھے۔ انہوں نے جونہی ایف آئی اے کے افسران کو دیکھا تو ہاتھ کانپنے لگ گئے جب غریب پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بے ہوش لوگ اس ڈاکٹر کے سامنے سٹریچر پر لٹائے جاتے تب انکی شکلیں دیکھ کر اس ظالم گروپ کو ترس نہ آتا، نہ اس نے ایک دفعہ کہا کہ "یہ ظلم مجھ سے نہیں ہوتا" بلکہ چکمتے دمکتے نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کر یہ گھناؤنا فعل خوشی خوشی سرانجام دیتا۔ایف آئی اے کے افسران آپریشن تھیٹر سے باہر چلے گئے اور محکمہ صحت کے ڈاکٹر افسران کو آپریشن تھیٹر میں چھوڑ گئے کہ اس کا آپریشن اب مکمل کریں اور انسانی جان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ خیر جیسے تیسے ڈاکٹر نے آپریشن مکمل کیا تو محکمہ صحت کی ٹیم نے فوری طور پر سعودی شہری اور گردہ فروخت کرنی والی عورت کو الائیڈ ہسپتال فیصل آباد شفٹ کیا تاکہ ان کا بہتر علاج ہوسکے۔جب وہیں پر ایف آئی اے کی ٹیم نے سوال وجواب کئیے تو ڈاکٹر نے کہا کہ میں تو صرف آپریشن کی فیس لیتا ہوں اصل گردوں کی خرید وفروخت کا مکروہ دھندا تو دو ''با اثر بھائی'' کرتے ہیں۔ یہ دونوں ملزمان فرار ہوگئے لیکن ایک دن بعد ایک کو ایف آئی اے نے اسکے موبائل کی لوکیشن سے گرفتار کرلیا ہے دوسرا بھائی کا تاحال غائب ہے !!۔ ہم کہلاتے مسلمان ہیں مگر ہر برا کام دھندہ کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ اس پیسے نے انہیں کئی کا نہیں چھوڑا ہے۔ بیٹا باپ کو قتل کررہا ہے۔ مردہ جانور کو فروخت کردیتے ہیں، کیمیکل ملا دودھ ، دو نمبر جعلی ادوایات، بڑے عہدوں کا ناجائز استعمال کر کے اپنے جیسے انسانوں کے اعضاء کا بزنس کرتے ہیں یہ سب برے کام کرنے کے بعد دعا کرتے ہیں ہمیں مرنے کے بعد جنت میں جگہ دینا۔انسان موت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جہنم سے نہیں جبکہ وہ جہنم سے بچ سکتا ہے موت سے نہیں۔